Site icon Urdu Ai

 انتھروپک کی رپورٹ: کیا دنیا اے آئی کی دوڑ میں برابر شریک ہے؟

 انتھروپک کی رپورٹ: کیا دنیا اے آئی کی دوڑ میں برابر شریک ہے؟

 انتھروپک کی رپورٹ: کیا دنیا اے آئی کی دوڑ میں برابر شریک ہے؟

 انتھروپک کی رپورٹ: کیا دنیا اے آئی کی دوڑ میں برابر شریک ہے؟

صرف دو سال کے اندر اندر امریکہ میں چالیس فیصد ملازمین نے مصنوعی ذہانت کو اپنی روزمرہ کی ملازمتوں میں شامل کر لیا ہے۔ یہ تبدیلی اتنی تیزی سے رونما ہوئی ہے کہ اس نے ٹیکنالوجی اپنائیت کی تاریخ کو ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ انتھروپک کی اے آئی اکنامک انڈیکس 2025 رپورٹ یہ واضح کرتی ہے کہ اے آئی کی رفتار بجلی، انٹرنیٹ اور موبائل فون سے کہیں زیادہ تیز ہے۔ بجلی کو دنیا میں عام ہونے میں کئی دہائیاں لگیں۔ انٹرنیٹ کو پانچ اور موبائل فون کو دس سال درکار ہوئے۔ لیکن اے آئی نے صرف دو برس میں وہ سطح حاصل کر لی ہے جو ماضی کی ٹیکنالوجیز کے لیے ناممکن تھی۔ Claude.ai جیسے ماڈلز کے ذریعے صارفین نے تحقیق، تدریس، کاروبار، سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ اور قانونی مشورے جیسے شعبوں میں اے آئی کو باقاعدہ ملازمت کا حصہ بنا لیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، Claude کے استعمال میں واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ کوڈنگ کا تناسب 36 فیصد پر برقرار ہے، لیکن تعلیم میں استعمال بڑھ کر 12.4 فیصد ہو گیا ہے، جو پہلے 9.3 فیصد تھا۔ سائنسی تحقیق میں بھی اضافہ ہوا ہے، جبکہ میڈیا، صحافت اور مارکیٹنگ جیسے نئے شعبے بھی اے آئی کی جانب مائل ہوئے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ صارفین اب صرف ہدایات دینے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ کام کی مکمل ذمہ داری اے آئی پر چھوڑ دیتے ہیں۔ خودکار ہدایات کی شرح صرف آٹھ ماہ میں 27 فیصد سے بڑھ کر 39 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صارفین اب Claude جیسے ماڈلز پر زیادہ اعتماد کر رہے ہیں اور ان سے فیصلہ سازی اور تنقیدی تجزیے کی توقع رکھتے ہیں۔

اس رپورٹ کا سب سے اہم پہلو اے آئی کی اپنائیت میں عالمی تفاوت ہے۔ انتھروپک کے اے آئی یوزج انڈیکس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلی آمدنی والے ممالک اے آئی کو تیزی سے اپنا رہے ہیں، جبکہ کم آمدنی والے ممالک پیچھے رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر، سنگاپور میں اے آئی اپنائیت امریکہ کے مقابلے میں 4.6 گنا زیادہ ہے۔ کینیڈا میں یہ شرح 2.9 گنا ہے۔ بھارت 0.27x، نائجیریا 0.20x، اور انڈونیشیا 0.36x پر موجود ہیں۔ یہ فرق جی ڈی پی فی کس کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے، جہاں 0.76 کا مضبوط تعلق ظاہر کرتا ہے کہ جس ملک کی معیشت مضبوط ہے، وہی اے آئی کو زیادہ اپناتا ہے۔

یہ فرق صرف ممالک کے درمیان نہیں بلکہ ایک ہی ملک کے اندر بھی موجود ہے۔ امریکہ میں واشنگٹن ڈی سی میں اے آئی اپنائیت کی شرح 3.82x ہے، جبکہ وسکونسن میں یہ صرف 1.35x ہے۔ تعلیمی اور تکنیکی مراکز جیسے نیویارک، میساچوسٹس، اور کیلیفورنیا میں یہ شرح درمیانے درجے پر ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اے آئی کی اپنائیت صرف دولت اور ٹیکنالوجی کے ساتھ نہیں بلکہ جغرافیہ، تعلیم، اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر پر بھی منحصر ہے۔

انتھروپک کی رپورٹ میں اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کاروباری ادارے اب اے آئی کو صرف ایک معاون آلہ نہیں بلکہ ایک مرکزی پیداواری قوت کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ Claude جیسے جدید اے آئی ماڈلز کی API کو اپنانے والے اداروں میں 77 فیصد استعمال ایسے نظاموں کے تحت ہو رہا ہے جہاں انسانی مداخلت برائے نام رہ گئی ہے۔ یہ اس جانب اشارہ ہے کہ اے آئی اب صرف چھوٹے موٹے کاموں کے لیے نہیں بلکہ مکمل ورک فلو آٹومیشن میں داخل ہو چکی ہے۔ اس میں ای میلز کا مسودہ بنانا، رپورٹس تیار کرنا، سافٹ ویئر کی جانچ، بزنس ڈاکومنٹیشن اور ڈیزائن ریویو شامل ہیں۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ ادارے ماڈلز کو اپنی مخصوص ضرورت کے مطابق تربیت دے رہے ہیں تاکہ ان سے وہی نتائج حاصل کیے جا سکیں جو اندرونی ٹیموں سے ممکن ہیں۔ پہلے صارفین کی نظر قیمت پر ہوتی تھی۔ لیکن اب وہ ماڈل کی کارکردگی، رفتار، سیاق و سباق کی سمجھ بوجھ اور انڈسٹری سے مطابقت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اے آئی اب ایک سستا حل نہیں بلکہ اسٹریٹجک سرمایہ کاری بن چکی ہے۔

لیکن بہت سے ادارے اس لیے اے آئی سے مکمل فائدہ نہیں اٹھا پاتے کیونکہ ان کے اندرونی نظام ڈیجیٹل یکجائی سے محروم ہوتے ہیں۔ ان کا ڈیٹا مختلف فائلوں، پلیٹ فارمز اور ڈیپارٹمنٹس میں منتشر ہوتا ہے۔ جسے اے آئی ماڈل ایک ساتھ سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ اکثر اداروں میں ماڈل ٹریننگ کے لیے مطلوبہ سیاق و سباق، داخلی علم، اور ماہرین کی رہنمائی بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں اے آئی ماڈلز صرف عمومی یا ناقص جوابات دے پاتے ہیں۔ جس سے اعتماد میں کمی آتی ہے۔

انتھروپک کی رپورٹ میں اداروں کے لیے واضح تجاویز بھی شامل کی گئی ہیں۔ پہلا قدم اپنے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی بہتری ہے۔ یعنی داخلی ڈیٹا کو ترتیب دینا، مرکزی پلیٹ فارمز پر لانا، اور ماڈلز کو مخصوص انسٹرکشنز دینا۔ دوسرا قدم ماہرین کے ذریعے اے آئی کی تربیت ہے، تاکہ وہ ادارے کی مخصوص زبان، مسائل اور مقاصد کو بہتر طور پر سمجھے۔ تیسرا اور سب سے اہم قدم یہ ہے کہ ادارے اے آئی کو صرف آٹومیشن کا ذریعہ نہ سمجھیں بلکہ فیصلہ سازی اور جدت طرازی کا حصہ بنائیں۔

رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ اگر دنیا اے آئی کی طاقت کو منصفانہ انداز میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہو گئی، تو 2030 تک عالمی معیشت میں 14 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ممکن ہے۔ لیکن اگر موجودہ تفاوت برقرار رہا، تو اے آئی نہ صرف معاشی ناہمواری کو بڑھائے گی بلکہ دنیا کو ایک ڈیجیٹل کالونیلزم کے دور میں دھکیل دے گی — جہاں ٹیکنالوجی کا کنٹرول صرف چند ممالک یا اداروں کے ہاتھ میں ہو گا، اور باقی دنیا اس کی محتاج بن کر رہ جائے گی۔

ایسی صورت حال میں فیصلہ کرنے کا اختیار صرف ماہرین یا ٹیکنالوجی کمپنیوں کے پاس نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ پالیسی سازوں، تعلیمی اداروں، اور عالمی تنظیموں کو اے آئی تک رسائی، تربیت اور استعمال کو ایک “حق” کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ انتھروپک کی رپورٹ صرف ایک جائزہ نہیں بلکہ ایک انتباہ بھی ہے — کہ اگر دنیا نے بروقت اقدامات نہ کیے، تو یہ ٹیکنالوجی مساوات کے بجائے مزید تقسیم کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

آخر میں انتھروپک رپورٹ یہ پیغام دیتی ہے کہ اے آئی صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں، بلکہ ایک عالمی معاشی قوت بن چکی ہے۔ اگر ہم نے اس کو انصاف، مساوات اور سب کے فائدے کے لیے استعمال نہ کیا، تو کل یہی اے آئی نیا معاشی فاصلہ پیدا کرے گی۔ اور ہم ایک بار پھر وہی سوال کریں گے جو آج ترقی پذیر دنیا کے ذہن میں گردش کر رہا ہے: کیا دنیا واقعی اے آئی کی دوڑ میں برابر شریک ہے؟

 
Exit mobile version