Site icon Urdu Ai

کیا آپ 2026 میں گوگل کی پہلی اے آئی گلاسز پہننے کے لیے تیار ہیں؟

کیا آپ 2026 میں گوگل کی پہلی اے آئی گلاسز پہننے کے لیے تیار ہیں؟

کیا آپ 2026 میں گوگل کی پہلی اے آئی گلاسز پہننے کے لیے تیار ہیں؟

کیا آپ 2026 میں گوگل کی پہلی اے آئی گلاسز پہننے کے لیے تیار ہیں؟

اگر آپ کو لگتا ہے کہ موبائل فون ہی ٹیکنالوجی کی انتہا ہے تو گوگل کا نیا منصوبہ آپ کی سوچ بدل سکتا ہے۔ 2026 میں گوگل پہلی بار ایسی جدید عینکیں مارکیٹ میں متعارف کروانے جا رہا ہے جو مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی سے چلیں گی۔ ان عینکوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نہ صرف آپ سے آواز کے ذریعے بات کر سکیں گی بلکہ آپ کو وہ معلومات بھی براہ راست دکھا سکیں گی جن کے لیے آج آپ کو فون یا کمپیوٹر کی سکرین دیکھنا پڑتی ہے۔

گوگل نے یہ اعلان دسمبر 2025 میں کیا اور یہ قدم اُس وقت اٹھایا گیا جب سمارٹ اے آئی ڈیوائسز کی مارکیٹ میں مقابلہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ خاص طور پر میٹا کمپنی کی جانب سے متعارف کی گئی رے بین اے آئی گلاسز کو عالمی سطح پر صارفین کی بڑی تعداد نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اب گوگل بھی اسی میدان میں قدم رکھ رہا ہے اور وہ بھی ایک نئے عزم اور ٹیکنالوجی کے ساتھ۔

گوگل کے مطابق وہ ابتدائی طور پر دو طرح کی گلاسز متعارف کروا رہا ہے۔ پہلی قسم کی عینکیں آواز پر مبنی ہوں گی، یعنی آپ صرف اپنی آواز سے ہدایات دیں گے اور یہ عینکیں آپ کو سن کر جواب دیں گی۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کہیں کہ “مجھے قریبی کیفے بتائیں” تو یہ عینکیں فوراً آپ کو آپ کی آواز سن کر قریبی کیفے کی معلومات فراہم کریں گی۔ دوسری قسم کی عینکوں میں لینز کے اندر ایک چھوٹی سی ڈسپلے اسکرین ہو گی جو آپ کی آنکھوں کے سامنے مختلف معلومات دکھا سکے گی، جیسے کہ نیویگیشن، ترجمہ، موسم کی صورتحال، یا آپ کے میسجز۔

گوگل نے اس منصوبے کے لیے کئی بڑی کمپنیوں سے شراکت کی ہے، جن میں سام سنگ، جنٹل مونسٹر اور واربی پارکر شامل ہیں۔ خاص طور پر واربی پارکر کے ساتھ گوگل نے 150 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ گلاسز کے ڈیزائن، معیار اور استعمال میں آسانی کو بہتر بنایا جا سکے۔ ان عینکوں کو گوگل کے اپنے آپریٹنگ سسٹم اینڈرائیڈ ایکس آر پر تیار کیا جا رہا ہے، جو خاص طور پر ورچوئل اور ایکسٹینڈڈ ریئلٹی ڈیوائسز کے لیے بنایا گیا ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ گوگل اس سے پہلے بھی سمارٹ گلاسز کے میدان میں قدم رکھ چکا ہے، مگر اُس وقت اس منصوبے کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔ اُس وقت کی ناکامی کی وجوہات میں کمزور اے آئی ٹیکنالوجی، مہنگا ہارڈ ویئر اور سپلائی چین کا محدود علم شامل تھا۔ لیکن اس بار گوگل نے ان تمام پہلوؤں پر پہلے سے تیاری کر لی ہے۔ گوگل کے شریک بانی سرگئی برن نے خود اعتراف کیا کہ پچھلی کوششیں ناکام اس لیے ہوئیں کیونکہ ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی۔ اب، ان کے مطابق، موجودہ اے آئی ٹیکنالوجی بہت زیادہ طاقتور ہو چکی ہے، اور یہ عینکیں واقعی آپ کی زندگی میں ایک حقیقی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں، بغیر اس کے کہ وہ آپ کو بار بار اپنی طرف متوجہ کریں۔

میٹا نے اپنی رے بین گلاسز کے ذریعے پہلے ہی سمارٹ گلاسز کے میدان میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ عینکیں نہ صرف تصاویر کھینچ سکتی ہیں بلکہ ان میں میٹا اے آئی ڈیجیٹل اسسٹنٹ بھی شامل ہے جو صارفین کو مختلف کاموں میں مدد فراہم کرتا ہے۔ ان میں ایک لینز میں چھوٹی اسکرین بھی ہوتی ہے جو پیغامات، تصاویر اور لائیو کیپشن دکھا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب گوگل کو ایک سخت مقابلے کا سامنا ہے، اور وہ اس چیلنج کو قبول کر چکا ہے۔

یہ نئی عینکیں صرف فیشن کا حصہ نہیں ہوں گی بلکہ روزمرہ زندگی کو آسان بنانے کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ اگر آپ سفر میں ہیں تو آپ کو راستہ معلوم کرنے کے لیے فون دیکھنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، عینکیں آپ کو آنکھوں کے سامنے راستہ دکھا دیں گی۔ اگر آپ کسی غیر ملکی زبان میں بورڈ پڑھنے سے قاصر ہیں تو یہ عینکیں آپ کو فوراً ترجمہ فراہم کریں گی۔ اگر آپ کو میسج آیا ہے تو وہ بھی آپ کو عینک کے لینز پر نظر آ جائے گا۔

اسی طرح، ان گلاسز میں سفر کرنے والوں کے لیے خاص طور پر ایک “ٹریول موڈ” بھی شامل کیا جا رہا ہے، جس کی مدد سے آپ گاڑی، ٹرین یا جہاز میں بیٹھ کر بھی انہیں استعمال کر سکیں گے۔ اس کے علاوہ، گوگل نے اپنے نئے ہیڈسیٹ گلیکسی ایکس آر کے لیے بھی اپڈیٹس کا اعلان کیا ہے جن میں ایک اہم فیچر یہ ہے کہ اب یہ ہیڈسیٹ ونڈوز کمپیوٹر سے بھی جُڑ سکے گا۔

یہ تمام ترقی بتاتی ہے کہ دنیا اب صرف فون یا لیپ ٹاپ کی نہیں رہی۔ ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں معلومات براہ راست ہماری آنکھوں کے سامنے ہوں گی۔ جہاں رابطہ، ترجمہ، نیویگیشن، موسم، اور دیگر سہولیات کے لیے صرف ایک نظر کافی ہو گی۔ یہ تمام چیزیں مصنوعی ذہانت کی مدد سے ممکن ہو رہی ہیں، اور گوگل اس دوڑ میں اب پوری تیاری کے ساتھ اترا ہے۔

گوگل کا یہ قدم دراصل ایک نئی دنیا کی شروعات ہے۔ جہاں ٹیکنالوجی انسانی زندگی کو مزید آسان، سمارٹ اور مؤثر بنانے میں مرکزی کردار ادا کرے گی۔ یہ عینکیں نہ صرف وقت بچائیں گی بلکہ ہمیں ایک ایسی زندگی کی طرف لے جائیں گی جہاں ہر کام مزید سادہ، تیز اور ذاتی نوعیت کا ہو گا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس تبدیلی کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم نے خود کو اس نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لیے تیار کر لیا ہے؟ ٹیکنالوجی ہر روز بدل رہی ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی خود کو بدلنا ہو گا۔ ان عینکوں کا آنا صرف ایک پروڈکٹ کی لانچ نہیں بلکہ ایک نئے دور کی شروعات ہے۔ ایک ایسا دور جہاں آپ کی آنکھیں آپ کا سب سے بڑا اسسٹنٹ ہوں گی۔

گوگل کی یہ نئی اسمارٹ گلاسز ہمارے روزمرہ کے معمولات کو بدل سکتی ہیں۔ ہم جو کچھ آج موبائل، لیپ ٹاپ یا سمارٹ واچ سے کرتے ہیں، وہ سب کل کو صرف ایک عینک سے ممکن ہو جائے گا۔ سوچیں کہ آپ چلتے ہوئے کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہیں، اور وہ جواب آپ کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو جاتا ہے۔ یا آپ کسی غیر ملکی شہر میں ہیں اور آپ کی عینک آپ کو ہر سائن بورڈ، دکان یا راستے کا ترجمہ فوراً فراہم کرتی ہے۔

یہ سب سننے میں سائنس فکشن لگتا ہے، مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ وقت آ چکا ہے۔ گوگل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پرانی غلطیوں سے سیکھ چکا ہے، اور اب وہ پوری دنیا کو ایک نیا تجربہ دینے کے لیے تیار ہے۔ یہ صرف ایک عینک نہیں ہو گی، بلکہ آپ کا ذاتی اسسٹنٹ، مترجم، نیویگیٹر اور مددگار بن جائے گی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ گوگل ان عینکوں کی قیمت کس حد تک عام صارفین کی پہنچ میں رکھتا ہے، اور کیا واقعی یہ عینکیں ہر کسی کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔ مگر ایک بات تو طے ہے کہ 2026 میں جب یہ گلاسز لانچ ہوں گی، تو ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک نیا باب شروع ہو گا۔

Exit mobile version