
مصنوعی ذہانت: آسٹیوپوروسس اور دیگر بیماریوں کی جلد تشخیص کا انقلابی حل
ہیلو دوستوں! امید ہے آپ سب خیریت سے ہوں گے۔ آج ہم بات کریں گے کہ مصنوعی ذہانت (AI) کیسے ہماری صحت کے نظام میں تبدیلی لا رہی ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ وہ سی ٹی اسکین جو عام طور پر مخصوص بیماریوں کی تشخیص کے لیے کیا جاتا ہے، دوسری پوشیدہ بیماریوں کا پتہ لگانے میں بھی مددگار ہو سکتا ہے؟ آئیے، آپ کو اس حیرت انگیز پیش رفت کے بارے میں بتاتے ہیں!
Nanox.AI: صحت کے شعبے میں ایک نیا قدم
Nanox.AI ایک ایسی کمپنی ہے جو مصنوعی ذہانت کی مدد سے بیماریوں کی جلد تشخیص میں مہارت رکھتی ہے۔ انہوں نے تین اسکریننگ پروڈکٹس متعارف کرائے ہیں جو عام سی ٹی اسکینز کے ذریعے آسٹیوپوروسس، دل کی بیماری، اور فیٹی لیور جیسی بیماریوں کی شناخت کر سکتے ہیں۔
آکسفورڈ کے NHS اسپتالوں نے 2018 میں آسٹیوپوروسس کی تشخیص کے لیے اس ٹیکنالوجی کو آزمایا۔ اور جب نتائج بہت شاندار نکلے تو 2020 میں اسے باضابطہ طور پر متعارف کروا دیا گیا۔ اسپتالوں کی رپورٹ کے مطابق، اس ٹیکنالوجی کی مدد سے مریضوں میں ریڑھ کی ہڈی کے فریکچر کی تشخیص کا تناسب چھ گنا بڑھ گیا۔ یہ مریض پھر آسٹیوپوروسس کے علاج کے لیے بھیجے گئے تاکہ ان کی بیماری کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے۔
ٹیکنالوجی کے فوائد اور چیلنجز
دوستوں، ہر نئی ایجاد کے کچھ فائدے اور کچھ چیلنجز ہوتے ہیں۔ پروفیسر قاسم جاوید، جو یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں آسٹیوپوروسس اور نایاب ہڈی کی بیماریوں کے ماہر ہیں، کہتے ہیں۔ کہ اس ٹیکنالوجی سے مریضوں کی جلد تشخیص ممکن ہو رہی ہے، لیکن ساتھ ہی صحت کے نظام پر دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔
کنگز کالج لندن کے پروفیسر سباسٹین اوورسِلین کے مطابق، جب زیادہ مریضوں کی تشخیص ہوتی ہے تو ان کے مزید ٹیسٹ اور علاج کے لیے اضافی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر AI زیادہ حساس ہو تو غیر ضروری ٹیسٹوں کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے۔
چیلنجز کا حل کیا ہے؟
پروفیسر جاوید نے ایک نیا حل پیش کیا ہے۔ آکسفورڈ اسپتال میں، ان مریضوں کو جو اسکریننگ کے ذریعے تشخیص شدہ ہوتے ہیں۔ نرسوں کے ذریعے فراہم کی جانے والی فریکچر پریوینشن سروس میں بھیجا جاتا ہے۔ اس سے ڈاکٹروں پر اضافی دباؤ نہیں پڑتا اور مریضوں کو بروقت علاج مل جاتا ہے۔
مستقبل کا فائدہ
یہ تو ماننا پڑے گا کہ مصنوعی ذہانت ہمیں بیماریوں کے ابتدائی مراحل میں ہی ان کا پتہ لگانے میں مدد دیتی ہے۔ جو علاج کے لیے بہت اہم ہے۔ پروفیسر جاوید کہتے ہیں، “فریکچر ان بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ جن کی وجہ سے لوگ اسپتال میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر ہم بیماری کو جلدی پہچان لیں تو یہ صحت کے نظام کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔
مسٹر اسٹڈہوم، جن کی والدہ آسٹیوپوروسس کی وجہ سے دونوں کولہوں کے فریکچر کا شکار ہوئیں، کہتے ہیں۔ “پہلے یہ بیماری صرف بوڑھوں کی سمجھی جاتی تھی، لیکن آج میں خوش ہوں کہ میں اپنے ہڈیوں کے چاک ہونے سے پہلے کچھ کر سکتا ہوں۔
آخر میں آپ کی رائے؟
دوستوں، مصنوعی ذہانت ہماری صحت کے لیے کتنی اہم ثابت ہو رہی ہے، یہ تو آپ نے دیکھ لیا۔ لیکن کیا ہمارا صحت کا نظام اس نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ آنے والے اضافی دباؤ کو سنبھالنے کے لیے تیار ہے؟ آپ کا کیا خیال ہے؟ کمنٹس میں اپنی رائے ضرور دیں!
No Comments