Site icon Urdu Ai

مصنوعی ذہانت کی نئی دنیا میں غریب ممالک کا مستقبل کیا ہے؟

مصنوعی ذہانت کی نئی دنیا میں غریب ممالک کا مستقبل کیا ہے؟

مصنوعی ذہانت کی نئی دنیا میں غریب ممالک کا مستقبل کیا ہے؟

مصنوعی ذہانت کی نئی دنیا میں غریب ممالک کا مستقبل کیا ہے؟

اقوامِ متحدہ خبردار کرتی ہے کہ 118 سے زائد ممالک مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ ڈیجیٹل تقسیم، غربت، تعلیم، روزگار اور مساوات میں شدید خلل پیدا کر سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت اب محض ایک ٹیکنالوجی نہیں بلکہ ایک عالمی طاقت کا ذریعہ بنتی جا رہی ہے۔ اس کا استعمال تعلیم، صحت، مواصلات، کاروبار اور حتیٰ کہ خارجہ پالیسی تک میں ہو رہا ہے۔ لیکن جب 93 فیصد ترقی یافتہ ممالک آن لائن ہوں اور صرف 27 فیصد کم آمدنی والے ممالک کے پاس یہ سہولت ہو، تو فرق واضح ہو جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مصنوعی ذہانت پر 40 سے زائد اجلاس ہو چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 118 ممالک مصنوعی ذہانت کے بنیادی ڈھانچے سے بھی محروم ہیں جبکہ 100 بڑی کمپنیاں، جن میں زیادہ تر امریکہ اور چین سے ہیں۔ عالمی مصنوعی ذہانت سرمایہ کاری کے 40 فیصد کی مالک ہیں۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا کنٹرول محدود ہاتھوں میں مرتکز ہو رہا ہے۔ اور یہی صورتحال مستقبل کی معاشی طاقتوں کا تعین کرے گی۔

کارنیگی میلون یونیورسٹی کی پروفیسر اتوسا کاشی کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت ڈیجیٹل تقسیم کو تین درجوں میں سمجھنا چاہیے۔ پہلا درجہ بنیادی رسائی کا ہے جہاں انٹرنیٹ یا ڈیجیٹل ڈیوائسز موجود نہیں۔ دوسرا درجہ معاشی رکاوٹوں کا ہے۔ یعنی انٹرنیٹ یا مصنوعی ذہانت ٹولز خریدنے کی استطاعت نہیں۔ تیسرا اور سب سے اہم درجہ قابلیت کا فرق ہے۔ جس میں صارفین کے پاس ان ٹولز کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کی صلاحیت یا تربیت موجود نہیں ہوتی۔ ان تینوں رکاوٹوں کا ایک ساتھ حل نکالنا ناگزیر ہے تاکہ ترقی پذیر دنیا پیچھے نہ رہ جائے۔

راہول ڈوگرا، جو جموں و کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور “مصنوعی ذہانت ورلڈ ٹوڈے” کے بانی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر میں ChatGPT استعمال کر رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں مصنوعی ذہانت ڈویلپر ہوں۔ اصل طاقت مصنوعی ذہانت بنانے میں ہے۔ صرف استعمال میں نہیں۔ ان کے مطابق ترقی پذیر ممالک کو صرف صارف نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت کے خالق بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ COVID-19 کے دوران جب دنیا آن لائن ہو چکی تھی۔ ترقی پذیر ممالک کے طلبا اور ملازمین انٹرنیٹ یا ڈیجیٹل سہولتوں کی عدم دستیابی کے باعث پیچھے رہ گئے۔

مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کئی شعبوں میں ملازمتوں کو متاثر کر رہی ہے۔ Google Nano جیسے مصنوعی ذہانت فیچرز نے فوٹوگرافرز کی خدمات کی مانگ کم کر دی ہے۔ جب کہ ChatGPT جیسے ماڈلز نے کانٹینٹ رائٹنگ، ترجمہ اور رپورٹنگ جیسے شعبے بدل دیے ہیں۔ ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے میدان میں اب مصنوعی ذہانت خود بخود اشتہارات تیار کر رہا ہے۔ راہول کے مطابق مصنوعی ذہانت ایسے ٹولز تیار کر رہا ہے جو نہ صرف کام کر رہے ہیں بلکہ انہی مواد سے سیکھ کر صارف کے ڈیٹا کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ اور یہی بات صارفین کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

پروفیسر اتوسا وضاحت کرتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت ڈیٹا سے ہی تربیت پاتا ہے۔ اگر صارفین صرف ٹولز استعمال کر رہے ہیں تو وہ اپنا ڈیٹا دے کر بھی طاقت حاصل نہیں کر رہے۔ جب تک ہم ڈیٹا پر کنٹرول حاصل نہیں کریں گے۔ مصنوعی ذہانت پر کنٹرول حاصل نہیں ہو سکتا۔

چینی اوپن سورس ماڈلز جیسے DeepSeek نے یہ ثابت کیا ہے کہ کم لاگت میں بھی اعلیٰ مصنوعی ذہانت ماڈل تیار کیے جا سکتے ہیں۔ ان ماڈلز میں تربیتی ڈیٹا، سورس کوڈ اور طریقہ کار سب کچھ عام کیا جاتا ہے۔ جس سے نوجوانوں کو سیکھنے، تربیت اور اختراع کا موقع ملتا ہے۔ یہ ماڈل ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک سنہری موقع ہو سکتے ہیں کہ وہ خود مختار مصنوعی ذہانت نظام تیار کریں۔

گوگل، Nvidia اور دیگر کمپنیاں کینیا، گھانا اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک میں مصنوعی ذہانت سینٹرز قائم کر چکی ہیں۔ تاہم UCLA کے پروفیسر رامش شنیواسن خبردار کرتے ہیں کہ یہ شراکتیں بظاہر مثبت لگتی ہیں لیکن یہ دراصل ڈیٹا، مزدوری، پانی اور بجلی کے استحصال کا نیا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ ان کے مطابق ہمیں ان شراکتوں پر اندھا اعتبار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے اثرات کو سنجیدگی سے دیکھنا چاہیے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت خواندگی کو فروغ دے، ماحولیاتی اثرات پر گلوبل ضابطے متعارف کرائے، ڈیٹا تحفظ کو بنیادی انسانی حق تسلیم کرے، اور ترقی پذیر ممالک کی مصنوعی ذہانت خودمختاری کو ممکن بنانے کے لیے مالی امداد اور تربیت فراہم کرے۔

ماضی میں موبائل فون اور انٹرنیٹ کی توسیع نے کچھ حد تک ڈیجیٹل فرق کو کم کیا، لیکن مصنوعی ذہانت ایک مختلف نوعیت کی ٹیکنالوجی ہے۔ یہ فیصلہ سازی، تخلیق اور کنٹرول کا ذریعہ بن چکی ہے۔ اگر ترقی پذیر دنیا نے اب بھی صرف مصنوعی ذہانت استعمال کرنے پر اکتفا کیا تو وہ ہمیشہ پیچھے رہ جائے گی۔ رامش کے مطابق مصنوعی ذہانت ایک نیا جمہوری سوال ہے۔ کیا دنیا میں سب کو برابر مواقع ملیں گے یا صرف چند طاقتور ممالک کو؟

یہ وقت ہے کہ ترقی پذیر دنیا مصنوعی ذہانت کے معاملے میں خود مختاری حاصل کرے۔ اس کے لیے اوپن سورس ماڈلز کو اپنانا، مقامی سطح پر تربیت و تحقیق کو فروغ دینا، اور حکومتی پالیسیوں کے ذریعے مصنوعی ذہانت کو تعلیمی اداروں کا حصہ بنانا ضروری ہے۔ یہی راستہ ہے جو مصنوعی ذہانت کے فوائد کو سب تک پہنچا سکتا ہے اور ڈیجیٹل غلامی سے بچا سکتا ہے۔

Exit mobile version