Site icon Urdu Ai

کیا پاکستان کا نیا نیشنل سپر ایپ عوام کو مصنوعی ذہانت سے چلنے والی سرکاری خدمات دے گا؟

کیا پاکستان کا نیا نیشنل سپر ایپ عوام کو مصنوعی ذہانت سے چلنے والی سرکاری خدمات دے گا؟

کیا پاکستان کا نیا نیشنل سپر ایپ عوام کو مصنوعی ذہانت سے چلنے والی سرکاری خدمات دے گا؟

کیا پاکستان کا نیا نیشنل سپر ایپ عوام کو مصنوعی ذہانت سے چلنے والی سرکاری خدمات دے گا؟

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس رینیو کروانا، ٹیکس فائل کرنا یا کسی پرمٹ کے لیے دفاتر کے چکر لگانے کے بجائے یہ سب کچھ ایک ہی موبائل ایپ کے ذریعے ہو جائے؟ یہی خواب اب حقیقت میں بدلنے جا رہا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن (MoITT) نے ایک نیشنل سپر ایپ بنانے کا اعلان کیا ہے جو تمام وفاقی اور صوبائی سرکاری خدمات کو ایک جگہ فراہم کرے گا۔

کراچی کے احمد کی مثال لیجیے، جسے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کے لیے تین دن دفاتر کے چکر لگانے پڑے۔ کبھی لمبی قطار، کبھی کاغذی کارروائی اور کبھی سسٹم بند ہونے کا بہانہ۔ یہی نہیں، ٹیکس فائل کرنے اور بجلی کے بل درست کروانے کے لیے بھی الگ الگ محکموں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ صرف احمد کی کہانی نہیں بلکہ لاکھوں پاکستانیوں کی روزمرہ حقیقت ہے۔ نیشنل سپر ایپ اس طرح کے مسائل کو ختم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جا رہا ہے تاکہ شہری ایک ہی پلیٹ فارم پر زیادہ تر حکومتی سہولتیں حاصل کر سکیں۔

یہ منصوبہ ڈیجیٹل اکانومی انہانسمنٹ پروجیکٹ (DEEP) کے تحت شروع کیا جا رہا ہے جسے ورلڈ بینک کی معاونت حاصل ہے۔ اس پروجیکٹ کا مقصد “Whole-of-Government Approach” کے تحت تمام محکموں کے سسٹمز کو آپس میں جوڑنا ہے تاکہ عوام کو صرف ایک ایپ یا ویب پورٹل کے ذریعے خدمات فراہم ہوں۔ 

پاکستان میں ہر سال تقریباً دو کروڑ سے زائد شہری مختلف خدمات کے لیے درخواستیں جمع کرواتے ہیں۔ صرف ڈرائیونگ لائسنس کی درخواستیں ہی تقریباً 40 لاکھ سالانہ ہیں۔ اسی طرح ایف بی آر کے مطابق پاکستان میں رجسٹرڈ ٹیکس فائلرز کی تعداد تقریباً 42 لاکھ ہے، مگر ان میں سے نصف سے زیادہ افراد وقت پر ٹیکس فائل نہیں کرتے، جس کی بڑی وجہ پیچیدہ نظام ہے۔ نیشنل سپر ایپ ان مسائل کو حل کر کے زیادہ شہریوں کو بروقت سروسز تک رسائی دے گا۔

 یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ حکومت نے فی الحال باضابطہ طور پر مصنوعی ذہانت  فیچرز کا اعلان نہیں کیا، تاہم اگر اس ایپ کو مستقبل میں مصنوعی ذہانت کے ساتھ integrate کیا گیا تو اس کے فوائد کئی گنا بڑھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مصنوعی ذہانت چیٹ بوٹس شہریوں کو فوری رہنمائی دے سکتے ہیں۔ اور سادہ زبان میں مسائل کا حل بتا سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت ٹرانسلیشن سسٹمز مختلف زبانوں میں خدمات فراہم کر کے دیہی اور شہری دونوں طبقوں کے لیے آسانی پیدا کر سکتے ہیں۔ پیش گوئی کرنے والے تجزیات حکومت کو یہ سمجھنے میں مدد دے گی کہ کس علاقے کو کس سروس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ فراڈ کا پتہ لگانے کے نظام جعلی دستاویزات اور مشکوک ٹرانزیکشنز کی بروقت نشاندہی کر سکیں گے۔

دنیا بھر میں ای-گورننس سسٹمز میں مصنوعی ذہانت تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر، یورپی یونین نے اپنی ”  AI for Public Services” حکمتِ عملی میں واضح کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت سے سرکاری خدمات کی رفتار، درستگی اور شفافیت میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔ بھارت میں DigiLocker اور آدھار سسٹم میں بھی مصنوعی ذہانت کو فراڈ کا پتہ لگانے کے نظام اور خودکار تصدیق کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے نیشنل سپر ایپ میں مصنوعی ذہانت شامل کرنے کی چند بڑی وجوہات یہ ہو سکتی ہیں کہ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور شہری خدمات کی طلب دن بدن بڑھ رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت لاکھوں درخواستوں کو تیزی سے پراسیس کر کے اس دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔ پاکستان کی غیر دستاویزی معیشت جی ڈی پی کے 36 فیصد کے قریب ہے۔ مصنوعی ذہانت پر مبنی ڈیٹا اینالیٹکس حکومت کو ٹیکس نیٹ بڑھانے میں مدد دے سکتا ہے۔ عالمی تحقیق کے مطابق، مصنوعی ذہانت چیٹ بوٹس کے ذریعے کسٹمر سروس کی کارکردگی 70% تک بہتر ہوتی ہے (PwC رپورٹ 2023)۔ اگر یہی ماڈل سپر ایپ میں شامل ہو تو شہریوں کو دفاتر کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے۔ ورلڈ بینک کے مطابق، ای-گورننس میں مصنوعی ذہانت فیچرز شامل کرنے سے کرپشن میں 30% تک کمی آ سکتی ہے۔ کیونکہ انسانی مداخلت کم ہو جاتی ہے۔

نیشنل سپر ایپ کو اس طرح بنایا جا رہا ہے کہ صارف ایک بار لاگ ان کر کے اپنی ضروریات جیسے لائسنس، ٹیکس، پرمٹ یا صحت و تعلیم کی خدمات حاصل کر سکے۔ اس کا سنگل سائن آن فیچر NADRA کی ڈیجیٹل شناخت سے منسلک ہوگا۔ یہ ماڈل دنیا کے کئی ممالک میں کامیاب ہو چکا ہے۔ مثال کے طور پر بھارت کا “DigiLocker” پلیٹ فارم 150 ملین سے زائد صارفین کو ڈیجیٹل دستاویزات اور حکومتی سروسز فراہم کر رہا ہے۔ جہاں مصنوعی ذہانت بھی دستاویزات کی تصدیق اور جعلسازی پکڑنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اسی طرز پر پاکستان کا نیشنل سپر ایپ بھی مستقبل میں زیادہ محفوظ اور اسمارٹ سروسز فراہم کر سکتا ہے۔

یہ پلیٹ فارم موبائل اور ویب دونوں پر 24/7 دستیاب ہوگا اور مختلف زبانوں کی سہولت کے ساتھ ہر ضلع اور دور افتادہ علاقے تک پہنچ سکتا ہے۔ پچھلے نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (NITB) کے ای-گورننس پروجیکٹس نے دکھایا ہے کہ ڈیجیٹل خدمات سے درخواست پروسیسنگ کا وقت 60 فیصد تک کم ہو سکتا ہے۔ اب اگر اس میں مصنوعی ذہانت شامل کر دیا جائے تو یہ وقت مزید آدھا ہو سکتا ہے اور پیچیدہ کام چند سیکنڈز میں مکمل ہو سکیں گے۔

مالی پہلو سے بھی یہ قدم اہم ہے۔ پاکستان میں غیر دستاویزی معیشت کا حجم جی ڈی پی کے 36 فیصد کے قریب ہے۔ جب فیس اور ٹیکس کی ادائیگی ایپ کے ذریعے آسان ہو جائے گی تو محصولات میں اضافہ ہوگا۔ مزید یہ کہ اگر مصنوعی ذہانت سسٹمز شامل کیے جائیں تو یہ نہ صرف عوام کو بروقت ادائیگی میں سہولت دیں گے بلکہ ٹیکس چوری کی نشاندہی کے لیے پیش گوئی کرنے والے تجزیات استعمال کر کے حکومت کو اضافی آمدنی حاصل کرنے میں بھی مدد دیں گے۔ جیسا کہ Business Recorder نے رپورٹ کیا، یہ ایپ اشتہارات، سبسکرپشنز اور پارٹنر سروسز کے ذریعے مالی طور پر بھی خودکفیل ہو سکتی ہے۔ اور مصنوعی ذہانت الگورتھمز اس ریونیو ماڈل کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔

اگر یہ منصوبہ کامیابی سے مکمل ہو گیا اور اس میں مصنوعی ذہانت کو مکمل طور پر انٹیگریٹ کر دیا گیا تو احمد جیسے لاکھوں شہریوں کو دفاتر کے چکر لگانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ صرف ایک موبائل ایپ ان کی تمام ضروریات پوری کرے گی۔ چاہے وہ لائسنس رینیو ہو، ٹیکس فائل کرنا ہو یا تعلیم اور صحت کی سہولت حاصل کرنا۔ یہ صرف ایک ایپ نہیں بلکہ پاکستان کے ڈیجیٹل اور مصنوعی ذہانت پر مبنی مستقبل کی طرف ایک انقلابی قدم ہوگا۔

Exit mobile version