اے آئی کا انقلاب: کیا بیماریاں واقعی ختم ہو جائیں گی؟
مصنوعی ذہانت کے میدان میں ہونے والی پیش رفت اب محض مشینوں کی صلاحیتوں تک محدود نہیں رہی۔ گوگل ڈیپ مائنڈ کے بانی اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈیمس ہسابس کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ رفتار سے ترقی جاری رہی، تو آئندہ برسوں میں ہم ایسی ٹیکنالوجی کے حامل ہو سکتے ہیں۔ جو دنیا سے بعض مہلک بیماریاں ختم کرنے میں مدد دے گی۔ یہ بات انہوں نے امریکی پروگرام “60 منٹس” کو دیے گئے انٹرویو میں کہی، جسے یوٹیوب پر دیکھا جا سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت، لیکن انسانی سطح کی
ڈیمس ہسابس کا ماننا ہے کہ آئندہ پانچ سے دس سال کے دوران ہم (AGI) حاصل کر سکتے ہیں۔ یعنی ایسی اے آئی جو صرف مخصوص کام کرنے کی بجائے انسانوں کی طرح مختلف کام سیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ یہی وہ سطح ہے جس کے بعد اے آئی نہ صرف انسانوں کے لیے آسانی پیدا کرے گی بلکہ ان کے ساتھ مل کر سوچنے، کام کرنے اور شاید فیصلے کرنے کے قابل بھی ہو جائے گی۔ ایسے AI ایجنٹس جو خودکار طریقے سے کام انجام دیتے ہیں پہلے ہی تجرباتی مراحل میں داخل ہو چکے ہیں۔
دوا سازی میں نیا باب
ڈیپ مائنڈ کی جانب سے حالیہ برسوں میں پروٹین کی لاکھوں ساختیں دریافت کی گئی ہیں۔ یہ کارنامہ نہ صرف حیاتیاتی تحقیق کے لیے سنگِ میل ہے بلکہ مستقبل میں بیماریوں کے خاتمے کے لیے بھی ایک امید تصور کیا جا رہا ہے۔
ہسابس کے مطابق، ان ساختوں کی شناخت سے نئی دوائیں تیار کرنا کہیں زیادہ تیز اور مؤثر ہو جائے گا۔ جس سے وہ بیماریاں بھی ختم کی جا سکیں گی جنہیں اب تک ناقابلِ علاج سمجھا جاتا تھا۔
روبوٹ، کام اور گھریلو زندگی
ہسابس نے اپنے انٹرویو میں روبوٹکس کے شعبے میں بھی بڑے امکانات کی نشاندہی کی۔ ان کے بقول، مستقبل میں ایسے روبوٹ متعارف ہو سکتے ہیں جو گھریلو کاموں کے علاوہ پیشہ ورانہ میدانوں میں بھی انسانوں کی مدد کریں گے۔
آج بھی ایسے اے آئی ٹولز دستیاب ہیں جو کالز شیڈیول کرنے اور ای میلز لکھنے جیسے کام انجام دے رہے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی اب محض مظاہروں تک محدود نہیں رہی۔
خطرات اور احتیاطیں
جہاں ایک طرف امید کی کرن موجود ہے۔ وہیں ہسابس نے مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال کے خدشات پر بھی زور دیا۔ ان کے مطابق اگر اے آئی کو انسانی اقدار سے ہم آہنگ نہ کیا گیا تو اس کا استعمال نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لیے ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ اے آئی کی ترقی کے ساتھ ساتھ اخلاقی حدود، ضابطے اور بین الاقوامی تعاون کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اے آئی کے ناقابلِ فرار دائرہ اثر پر ایک تازہ تجزیہ بھی یہی نشاندہی کرتا ہے۔
کیا انسان کی اہمیت کم ہو جائے گی؟
ایک عام سوال یہ بھی ہے کہ جب اے آئی سب کچھ بہتر انداز میں کرے گی۔ تو انسانوں کے لیے کیا باقی بچے گا؟ اس بارے میں یہ مضمون مفید بصیرت فراہم کرتا ہے۔ کہ کن انسانی صلاحیتوں کی اہمیت آئندہ بھی برقرار رہے گی۔
امید اور احتیاط کا ملاپ
ڈیمس ہسابس کی گفتگو ہمیں ایک ایسے مستقبل کی جھلک دکھاتی ہے۔ جہاں مصنوعی ذہانت ہماری زندگیوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تاہم یہ سفر محض سائنسی کامیابی کا نہیں بلکہ ایک ذمہ دارانہ راستہ اپنانے کا بھی ہے۔ اگر اس ٹیکنالوجی کو درست سمت میں استعمال کیا گیا تو ممکن ہے۔ کہ وہ دن دور نہ ہو جب انسان کئی خطرناک بیماریوں سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کر لے۔