Site icon Urdu Ai

کیا یوٹیوب کا نیا ٹول ڈیپ فیک ویڈیوز کو روک پائے گا؟

کیا یوٹیوب کا نیا ٹول ڈیپ فیک ویڈیوز کو روک پائے گا؟

کیا یوٹیوب کا نیا ٹول ڈیپ فیک ویڈیوز کو روک پائے گا؟

کیا یوٹیوب کا نیا ٹول ڈیپ فیک ویڈیوز کو روک پائے گا؟

یوٹیوب نے ایک نیا مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹول متعارف کرایا ہے جو تخلیق کاروں کی اجازت کے بغیر ان کی آواز یا چہرے کا استعمال روکنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ یہ ٹول ڈیپ فیک جیسی جدید مگر خطرناک ٹیکنالوجی کے بڑھتے ہوئے استعمال کے جواب میں سامنے آیا ہے۔ ایسے وقت میں جب یوٹیوب پر ہر منٹ پانچ سو گھنٹے سے زیادہ ویڈیو اپ لوڈ ہوتی ہے، یہ ٹول تخلیق کاروں کی شناخت کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

ڈیپ فیک ویڈیوز کا استعمال کس حد تک بڑھ چکا ہے؟ حالیہ مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف تفریح میں، بلکہ سیاسی و تجارتی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو رہی ہے۔ ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کی مدد سے کسی بھی شخص کی شکل یا آواز کو کسی ویڈیو یا آڈیو میں اس انداز سے شامل کیا جا سکتا ہے کہ وہ اصلی محسوس ہو۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد یوٹیوبرز کی شناخت چوری ہو چکی ہے۔ سنہ دو ہزار پچیس کے آغاز میں، معروف یوٹیوبر جیف گیرلِنگ کی آواز کو ایک چینی الیکٹرانکس کمپنی ایلیکرو نے ایک جعلی ویڈیو میں استعمال کیا تاکہ اپنی مصنوعات کی تشہیر کی جا سکے۔ جیف کو اس وقت علم ہوا جب ایک ناظر نے اس ویڈیو کی نشاندہی کی۔ اس واقعے کے بعد یوٹیوب پر تخلیق کاروں میں شدید تشویش پیدا ہوئی۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے نہ صرف آواز بلکہ چہرے کی بھی نقل کی جا رہی تھی، اور اس سے ناظرین گمراہ ہو سکتے تھے۔ اسی پس منظر میں یوٹیوب نے “لائیکنیس ڈیٹیکشن ٹول” کو باقاعدہ طور پر بائیس اکتوبر دو ہزار پچیس کو متعارف کرایا۔

یوٹیوب کا یہ نیا ٹول بالکل ویسے ہی کام کرتا ہے جیسے یوٹیوب کا مواد شناختی نظام، جو کاپی رائٹ کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ ویڈیوز کو خودکار طریقے سے جانچتا ہے، تخلیق کار کے چہرے یا آواز کی مصنوعی موجودگی کو پہچانتا ہے، اور اگر مشابہت پائی جائے تو تخلیق کار کو اس کی اطلاع دی جاتی ہے۔ یوٹیوب کے ڈیش بورڈ میں ایک نیا “شناخت” نامی خانہ شامل کیا گیا ہے، جہاں تخلیق کار وہ ویڈیوز دیکھ سکتے ہیں جن میں ان کے چہرے یا آواز کا استعمال کیا گیا ہو۔ تخلیق کار کے پاس تین اختیارات ہوتے ہیں: ویڈیو کو ہٹانے کی درخواست دینا، ویڈیو کو بطور ریکارڈ محفوظ رکھنا، یا اس پر حقوقِ اشاعت کی شکایت درج کرانا۔

یہ سہولت فی الحال صرف ان تخلیق کاروں کے لیے دستیاب ہے جو یوٹیوب کے شراکتی پروگرام کا حصہ ہیں۔ ابتدائی طور پر پانچ ہزار تخلیق کاروں کو اس آلے تک رسائی دی گئی۔ اس ٹول کو فعال کرنے کے لیے تخلیق کار کو اپنی شناخت کی تصدیق کرانا ضروری ہے، جس کے مراحل میں ایک کوڈ کو اپنے موبائل سے اسکین کرنا، سرکاری شناختی کارڈ اپلوڈ کرنا، اور ایک مختصر سیلفی ویڈیو ریکارڈ کر کے جمع کروانا شامل ہے۔ یوٹیوب چند دنوں میں ان دستاویزات کی جانچ مکمل کر کے رسائی فراہم کرتا ہے۔

یوٹیوب اور تخلیقی ایجنسی کریئیٹو آرٹسٹس ایجنسی کی شراکت سے تیار کردہ اس آلے کی آزمائش ابتدا میں مسٹر بیسٹ، مارکیز براؤنلی، اور ڈاکٹر مائیک جیسے معروف تخلیق کاروں کے ساتھ کی گئی۔ یوٹیوب نے مجوزہ امریکی قانون نو فیکس ایکٹ کی بھی حمایت کی ہے، جس کا مقصد ہے کہ اگر کوئی پلیٹ فارم کسی فرد کی شناخت بغیر اجازت استعمال کرے تو فوری کارروائی لازمی ہو۔

یوٹیوب پر ہر منٹ پانچ سو گھنٹے کی ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ اس بڑی تعداد کو انسانی ٹیم کے ذریعے جانچنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خودکار نظام کی ضرورت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ یوٹیوب کا نیا مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹول ایسی ویڈیوز کو جلدی اور مؤثر انداز میں پہچانے گا جن میں کسی تخلیق کار کی شکل یا آواز کو بغیر اجازت استعمال کیا گیا ہو۔

اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت دراصل کیا ہے اور یہ کیسے وجود میں آئی؟ تو اس کا تاریخی جائزہ لینا اہم ہو گا۔ اس پس منظر میں یہ ٹول ایک جدید حل کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔

یوٹیوب نے واضح کیا ہے کہ یہ ٹول صرف ان ویڈیوز کو نشان زد کرے گا جو تخلیق کار کی شناخت سے مشابہ ہوں اور جن کے بارے میں تخلیق کار کو علم نہ ہو۔ تخلیق کاروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے یوٹیوب اسٹوڈیو میں موجود “شناخت” کے حصے کو باقاعدگی سے چیک کریں، مشکوک ویڈیوز کی فوری اطلاع دیں، تصدیقی عمل مکمل کریں، اور اپنے ناظرین کو جعلی مواد سے متعلق آگاہ کریں۔

فی الحال یہ ٹول صرف یوٹیوب پر موجود ویڈیوز کے لیے کام کر رہا ہے، لیکن مستقبل میں ممکن ہے کہ اسے براہِ راست نشریات، مختصر ویڈیوز اور دیگر اقسام کی ویڈیوز پر بھی لاگو کیا جائے۔ مزید یہ بھی ممکن ہے کہ یوٹیوب اس آلے کو دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کو لائسنس کے تحت فراہم کرے تاکہ پورے انٹرنیٹ پر شناختی چوری کے خطرے سے بچا جا سکے۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مصنوعی ذہانت صرف معلومات سیکھنے کا عمل نہیں، بلکہ یہ انسانی شخصیت کو بھی چند گھنٹوں میں سیکھ سکتی ہے۔ ایسے میں کسی فرد کی شناخت کی چوری نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی مسئلہ بن چکا ہے۔

Exit mobile version