امریکہ اور چین کی دوڑ میں اے آئی ایک نیا موڑ
دوستو! میں ہوں اردو اے آئی سے معراج احمد، اور آج ہم بات کریں گے امریکہ اور چین کے درمیان ٹیکنالوجی کی دوڑ کے بارے میں۔ کیا واقعی امریکہ عالمی برتری برقرار رکھنے کے لیے ہر حد پار کرنے کو تیار ہے؟ کیا چین، جسے ہمیشہ ایک چیلنج سمجھا گیا، اب واقعی آگے نکل چکا ہے؟ آئیے، اس بلاگ میں جانتے ہیں۔
اگر کوئی ایک جملہ امریکہ کی انتہا عالمی برتری کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ تو وہ سابق امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن کے یہ الفاظ ہیں۔ “اگر آپ میز پر نہیں ہیں تو آپ مینو میں ہیں۔ ” یہ محض ایک جملہ نہیں، بلکہ امریکی پالیسیوں کی اصل سوچ کی عکاسی ہے۔ اور حالیہ واقعات یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اگر امریکہ خود کسی دوڑ میں آگے نہیں ہو سکتا، تو وہ اس دوڑ کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ آزمائے گا۔
چین کی بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کو روکنے کی امریکی کوششں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ تازہ ترین مثال امریکی ایوانِ نمائندگان میں پیش کیا گیا بل ہے، جو چینی AI ایپ “ڈیپ سیک” کو وفاقی ڈیوائسز پر استعمال کرنے سے روکنے کی تجویز دیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے چین کی ترقی رک جائے گی؟ شاید نہیں۔ بلکہ یہ امریکہ کی کمزور ہوتی گرفت کو مزید واضح کر دے گا۔
ڈیپ سیک: ایک نیا چیلنج
چین کے شہر ہانگژو میں قائم ڈیپ سیک، مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک بڑا نام بن چکا ہے۔ اس کی جدید ترین ٹیکنالوجی، جیسے DeepSeek-V3، امریکی کمپنیوں کے جدید ماڈلز کے برابر ہی نہیں، بلکہ کئی پہلوؤں میں بہتر بھی ہے۔ اور وہ بھی حیرت انگیز طور پر کم لاگت میں۔ کمپنی کے مطابق، ان کے ماڈل کو تربیت دینے میں Nvidia H800 چپس پر 60 لاکھ ڈالر سے بھی کم خرچ آیا۔ جبکہ امریکی کمپنیاں اسی سطح کے ماڈلز کے لیے کہیں زیادہ سرمایہ لگاتی ہیں۔ مزید یہ کہ، ڈیپ سیک کا AI اسسٹنٹ ایپل کے ایپ اسٹور پر سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کیا جانے والا مفت ایپ بن چکا ہے۔ جس نے امریکی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔
ڈیپ سیک کی اس کامیابی نے AI کی دنیا میں ایک نیا موڑ پیدا کر دیا ہے۔ جب 2022 میں OpenAI نے ChatGPT متعارف کروایا تو چینی کمپنیاں بھی میدان میں آئیں، مگر ابتدائی کامیابیاں محدود رہیں۔ لیکن اب ڈیپ سیک نے یہ ثابت کر دیا کہ چین کی AI ٹیکنالوجی کسی سے کم نہیں۔ DeepSeek-V3 اور DeepSeek-R1 جیسے ماڈلز OpenAI اور Meta کے جدید ترین ماڈلز کے براہ راست حریف بن چکے ہیں۔
امریکہ کا ردعمل: خوف یا حکمت عملی؟
اب امریکی حکومت “نو ڈیپ سیک آن گورنمنٹ ڈیوائسز ایکٹ” کے ذریعے اس چینی کمپنی پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ یہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ لیکن حقیقت میں، یہ ایک اور کوشش ہے جس کے ذریعے چین کی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بالکل ویسے جیسے ہواوے کے خلاف کیا گیا تھا۔ لیکن کیا پابندیاں واقعی کارگر ثابت ہوتی ہیں؟ اگر ہواوے کی مثال لیں تو حقیقت کچھ اور ہی نظر آتی ہے۔ امریکی پابندیوں کے باوجود، 2023 میں ہواوے کی آمدنی میں 22% اضافہ دیکھا گیا۔ جو 2016 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔
یہ بات واضح ہے کہ امریکہ چین کی ٹیکنالوجی کو محدود کرنے کے لیے سخت اقدامات کر رہا ہے، خاص طور پر سیمی کنڈکٹر اور AI چپس کی برآمد پر پابندیاں لگا کر۔ مگر ڈیپ سیک کی ترقی نے ثابت کر دیا کہ چین ان رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑھ رہا ہے۔ بیجنگ نے امریکی دباؤ کے آگے جھکنے کے بجائے اپنی تحقیق میں مزید سرمایہ کاری کی، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ جدید AI کی ترقی کے لیے انتہائی اعلیٰ ہارڈ ویئر کی ضرورت نہیں ہوتی۔
کیا امریکہ اپنی برتری برقرار رکھ سکتا ہے؟
امریکی ٹیکنالوجی انڈسٹری میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ OpenAI کے سی ای او سیم آلٹمین نے بھی تسلیم کیا کہ ان کی کمپنی “اوپن سورس AI کے معاملے میں تاریخ کے غلط جانب کھڑی ہے۔” یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ خود امریکی کمپنیاں اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کر رہی ہیں۔
یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ چین نے صرف AI ہی نہیں، بلکہ برقی گاڑیوں (EVs)، گرین ٹیکنالوجی، اور قابل تجدید توانائی کے میدان میں بھی امریکہ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ یہ سب کچھ بیجنگ کی طویل مدتی سرمایہ کاری اور سرکاری تحقیقاتی منصوبوں کی بدولت ممکن ہوا۔ اگر موجودہ رفتار برقرار رہی، تو چین کا پیچھے ہٹنا ناممکن ہوگا، خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی کے میدان میں۔
نتیجہ؟ امریکہ کو اب اپنے اصول بدلنے ہوں گے۔ کیا وہ چین کی طرح جدت طرازی کرے گا یا صرف پابندیوں پر انحصار کرتا رہے گا؟ وقت ہی بتائے گا کہ کون سی قوم AI کی دنیا پر راج کرے گی۔ مگر فی الحال، چین کی برتری واضح طور پر بڑھ رہی ہے۔