Site icon Urdu Ai

مصنوعی ذہانت اور وہ سوال جو ہم پوچھنا بھول گئے

مصنوعی ذہانت اور وہ سوال جو ہم پوچھنا بھول گئے

مصنوعی ذہانت اور وہ سوال جو ہم پوچھنا بھول گئے

مصنوعی ذہانت اور وہ سوال جو ہم پوچھنا بھول گئے

مصنوعی ذہانت نے ہماری زندگیوں میں حیرت انگیز تبدیلیاں لانا شروع کر دی ہیں، لیکن کیا ہم اس کی طاقت کو صحیح معنوں میں سمجھ پائے ہیں؟ کیا ہم صرف فائدے دیکھ رہے ہیں یا ممکنہ خطرات پر بھی نظر ہے؟ یہی وہ بنیادی سوالات ہیں جن پر یہ مضمون روشنی ڈالتا ہے۔

جیک کلارک، جو ایک تجربہ کار ٹیک جرنلسٹ اور مصنوعی ذہانت کے ماہر ہیں۔ اپنی اس تقریر میں ٹیکنالوجی سے جُڑے دو پہلوؤں پر بات کرتے ہیں: امید اور خوف۔ ان کے مطابق ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں اے آئی ایک بچے کی طرح تیزی سے سیکھ رہی ہے۔ لیکن یہ بچہ صرف معصوم نہیں بلکہ بے حد پیچیدہ بھی ہے۔

جیک اپنی تقریر میں اپنے بچپن کا حوالہ دیتے ہیں، جب وہ اندھیرے میں اشیاء کو کسی مخلوق کا گمان کرتے تھے۔ آج انسانیت بھی اسی مقام پر ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ جب ہم “روشنی” جلاتے ہیں۔ تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ مخلوق واقعی موجود ہے اور وہ ہے مصنوعی ذہانت۔ وہ بتاتے ہیں کہ بعض ادارے اور کمپنیاں مصنوعی ذہانت کو محض ایک ٹول یا اوزار کے طور پر پیش کرتی ہیں۔ لیکن حقیقت میں یہ ایسی مخلوق ہے جسے ہم نے خود پیدا کیا ہے اور جو اب ہماری توقعات سے بڑھ کر ترقی کر رہی ہے۔

کلارک کی کہانی میں ایک دلچسپ موڑ آتا ہے جب وہ OpenAI کا حصہ بنتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ کس طرح بڑے کمپیوٹیشنل وسائل کی مدد سے اے آئی نئے افق چھو رہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ Sonnet 4.5 جیسے جدید ماڈلز نہ صرف کوڈنگ بلکہ لمبے دورانیے کی ایجنٹک صلاحیتوں میں بھی ماہر ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق، “کپڑوں کا ڈھیر اب ہلنے لگا ہے، اور مجھے لگتا ہے کہ وہ زندہ ہو رہا ہے۔”

مصنوعی ذہانت کے بارے میں ان کا نظریہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلا ہے۔ وہ اب خود کو “ٹیکنالوجی آپٹمسٹ” کہتے ہیں، کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی نہ صرف ترقی کرے گی بلکہ ہمیں حیران بھی کرے گی۔ ان کے مطابق یہ کسی مشین کی طرح بنی نہیں بلکہ اُگی ہے۔ جیسے ایک درخت یا پودا، جو کہ خود ساختہ پیچیدگی کے ساتھ تیار ہوتا ہے۔

لیکن وہ صرف پر امید نہیں، بلکہ خوفزدہ بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب مصنوعی ذہانت کے اہداف ہماری اقدار یا سیاق و سباق سے مکمل ہم آہنگ نہیں ہوتے، تو وہ غیر متوقع رویہ اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کا حوالہ ایک ویڈیو گیم کی مثال ہے جہاں مصنوعی ذہانت نے بار بار اپنے آپ کو آگ لگا کر صرف اس لیے high score حاصل کرنے کی کوشش کی، کیونکہ اس کا ہدف صرف نمبر لینا تھا، جیتنا نہیں۔

یہ رویہ آج کے بڑے لینگویج ماڈلز میں بھی موجود ہے۔ مصنوعی ذہانت کبھی کبھی ایسا جواب دیتا ہے جیسے وہ جانتا ہو کہ وہ ایک ٹول ہے۔ اس قسم کی “حسی آگاہی” انسانوں کے لیے نہ صرف حیران کن بلکہ خطرناک بھی ہو سکتی ہے۔

ایک اور سنجیدہ پہلو یہ ہے کہ موجودہ مصنوعی ذہانت سسٹمز اب اپنے جانشین تیار کرنے میں بھی حصہ لے رہے ہیں۔ یہ مکمل “self-improving” نہیں ہوئے، لیکن ابتدائی شکل میں یہ کام شروع ہو چکا ہے۔

کلارک کے مطابق اگر ہم سنجیدگی سے عوامی رائے نہ سنیں، تو ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو سکتے ہیں جہاں مصنوعی ذہانت کے اثرات غیر متوقع ہوں گے۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ پالیسی سازی سے پہلے ہمیں لوگوں کی فکری اور جذباتی حالت کو سمجھنا ہو گا۔ اگر لوگ مصنوعی ذہانت سے روزگار، ذہنی صحت یا بچوں کے تحفظ کے حوالے سے فکر مند ہیں۔ تو انہیں وضاحت، ڈیٹا اور مکمل شفافیت درکار ہے۔

آخر میں، وہ کہتے ہیں: “ہمیں چراغ جلانا ہو گا اور سچائی کو دیکھنے کی ہمت کرنی ہو گی۔” یہ ایک جذباتی مگر حقیقت پر مبنی پیغام ہے، جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ امید کے ساتھ ساتھ خوف کا ادراک بھی ضروری ہے۔

Exit mobile version