یونیورسٹیاں مصنوعی ذہانت کو خطرے سے موقع میں کیسے بدل سکتی ہیں؟
جب طلبہ چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ٹولز سے اسائنمنٹس لکھوانے لگیں تو سوال یہ ہے: کیا وہ واقعی کچھ سیکھ رہے ہیں؟ اگر نہیں، تو تعلیمی نظام کو خود پر سوال اٹھانے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ صرف اے آئی پر پابندی لگانے کی۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں تعلیمی اداروں کو محض نقل اور ڈسپلن پر توجہ دینے کے بجائے، یہ سوچنا ہو گا کہ اصل مقصد سیکھنا ہے یا صرف نمبر حاصل کرنا۔
دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں “جنریٹیو مصنوعی ذہانت” نے قدم جما لیے ہیں۔ ChatGPT، Google Gemini، Copilot اور DeepSeek جیسے اے آئی ٹولز تحریری اسائنمنٹس لکھ رہے ہیں۔ ریسرچ پیپرز کا خلاصہ بنا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ پیچیدہ تجزیے اور کوڈنگ تک مکمل کر رہے ہیں۔ ان اے آئی ٹولز کی مدد سے طلبہ صرف چند منٹ میں وہ کام مکمل کر لیتے ہیں جن پر پہلے کئی دن لگتے تھے۔
کئی اساتذہ کا خیال ہے کہ یہ نقل اور غیر اخلاقی طریقہ ہے۔ ادارے دو حصوں میں بٹے ہوئے ہیں: کچھ نے اے آئی پر پابندیاں لگائی ہیں۔ کچھ نے اسے قبول کر لیا ہے۔ باقی اب بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ تعلیمی نظام طلبہ کو وہ سکھا رہا ہے جو آج کی دنیا میں درکار ہے؟ یا یہ صرف نظامِ امتحانات اور گریڈنگ کے گرد گھوم رہا ہے؟
ہماری تحقیق کے مطابق یونیورسٹیوں کے زیادہ تر امتحانات “یادداشت” اور “رٹے” پر مبنی ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ کام ہے جس میں اے آئی ماہر ہے: Multiple Choice Questions چند لمحوں میں تیار، تعریفات اور تاریخیں بغیر کسی محنت کے، اسائنمنٹس اور خلاصے ایک بٹن پر مکمل۔ یعنی اے آئی ان تمام امتحانی سرگرمیوں کو باآسانی مکمل کر سکتا ہے جو طلبہ کی اصل صلاحیتوں کو ناپنے کے بجائے محض ان کی یادداشت کو جانچتی ہیں۔
کیا اب تعلیمی نظام بے معنی ہو چکا ہے؟ نہیں۔ بلکہ یہ وقت ہے امتحانات کو نئے سرے سے ڈیزائن کرنے کا، تاکہ طلبہ ان صلاحیتوں پر توجہ دیں جو اے آئی نہیں کر سکتا۔ جیسے تجزیاتی سوچ، تنقیدی نظریہ، تخلیق، اور فیصلہ سازی۔ تعلیم میں عالمی سطح پر Bloom’s Taxonomy استعمال ہوتا ہے۔ جو سیکھنے کو چھ درجات میں تقسیم کرتا ہے: یادداشت (Remembering)، سمجھ (Understanding)، اطلاق (Applying)، تجزیہ (Analyzing)، تنقید (Evaluating)، تخلیق (Creating)۔
اے آئی صرف نچلے درجے کے کام انجام دے سکتا ہے۔ اونچے درجے کی سوچ جیسے تنقید، تجزیہ اور تخلیق، انسانی دماغ کی برتری ثابت کرتے ہیں۔ یعنی، اگر تعلیمی نظام ان اعلیٰ صلاحیتوں پر توجہ دے تو اے آئی ایک آلہ ہے، خطرہ نہیں۔ مصنوعی ذہانت کے اس دور میں استاد کا کردار نمبر دینے والے سے ہٹ کر رہنما کا بن چکا ہے۔ اب اساتذہ سیکھنے کے عمل کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اے آئی سے بچنے کی بجائے اسے سیکھنے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ طلبہ کو Self-Directed Learning کی طرف لے جاتے ہیں۔ Self-Directed Learning وہ عمل ہے جب طلبہ خود سیکھنے کے اہداف طے کریں۔ مواد تلاش کریں، سیکھنے کی حکمت عملی اپنائیں، اور نتائج کا جائزہ لیں۔ اس عمل سے نہ صرف طلبہ ذمہ داری لینا سیکھتے ہیں بلکہ وہ اپنی تعلیمی کمزوریوں کو بھی بہتر طریقے سے سمجھ پاتے ہیں۔
اے آئی کو تعلیم سے نکالنے کی بجائے، اسے تنقیدی سوچ سکھانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ طلبہ سے اے آئی کے بنائے گئے جوابات پر تنقید کروائیں۔ اس میں غلطیاں تلاش کریں، سیاق و سباق سے مطابقت دیکھیں، حقیقت کی بنیاد پر پرکھیں۔ طلبہ سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی اے آئی-generated تحریر کو پڑھ کر اس میں منطق کی کمی، سچائی کی جانچ، اور استدلال کی طاقت کا تجزیہ کریں۔ اس سے وہ نہ صرف خود بہتر لکھنا سیکھتے ہیں بلکہ اے آئی کے استعمال کو بھی سمجھ بوجھ سے اپناتے ہیں۔
اسائنمنٹس کو اصلی دنیا سے منسلک کریں جیسے کہ مقامی کیس اسٹڈیز پر مبنی سوالات، دیبیٹس، پروجیکٹس اور پورٹ فولیو پر مبنی جائزے۔ یہ وہ سرگرمیاں ہیں جہاں اے آئی کی قابلیت محدود ہو جاتی ہے، اور انسانی تجربہ، مشاہدہ اور جذبات فیصلہ کن حیثیت اختیار کرتے ہیں۔ طلبہ کو اے آئی کی حدود، تعصبات، اور ممکنہ خطرات سے آگاہی دیں۔ اے آئی کو ایک بلیک باکس نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے ایک ایسا ٹول سمجھا جائے جو تربیت یافتہ ہے۔ مگر مکمل نہیں۔ طلبہ کو سکھایا جائے کہ ہر اے آئی ماڈل میں کسی نہ کسی سطح پر bias یا تعصب موجود ہوتا ہے، جس کا ادراک ضروری ہے۔
طلبہ کو اے آئی کے استعمال کو ظاہر کرنے کی ترغیب دیں تاکہ تعلیمی دیانتداری قائم رہے۔ جیسے ریفرنس دینا ضروری ہے، اسی طرح اے آئی کے استعمال کا اعتراف بھی سچائی اور شفافیت کی علامت بنے۔ اساتذہ کو اے آئی انضمام کے لیے تربیت دیں تاکہ وہ طلبہ کی رہنمائی مؤثر طریقے سے کر سکیں۔ یہ تربیت صرف تکنیکی نہیں بلکہ پالیسی، اخلاقیات اور تدریسی حکمت عملی پر بھی مشتمل ہونی چاہیے۔
حالیہ مطالعات سے درج ذیل نتائج سامنے آئے: اے آئی ابتدائی درجے کے کاموں میں مفید ہے، اعلیٰ سطح کی سوچ میں ناکام، اگر طلبہ کو صحیح راہ دکھائی جائے تو اے آئی سیکھنے کا ساتھی بن سکتا ہے، اساتذہ اے آئی کو کام میں لا کر زیادہ مؤثر تعلیمی مواد تیار کر سکتے ہیں۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ اے آئی نہ صرف مشق کے سوالات تیار کر سکتا ہے بلکہ خودکار فیڈبیک دے کر طلبہ کو فوری رہنمائی بھی فراہم کر سکتا ہے۔
یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ اے آئی سے خوف زدہ نہ ہوں۔ بلکہ اسے طلبہ کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کریں۔ مطلوبہ گریجویٹ صرف معلومات کا ذخیرہ نہ ہو، بلکہ تنقیدی سوچنے والا، فیصلہ ساز اور تخلیقی انسان ہو، جو مشین کے نہیں، معاشرے کے مسائل کا حل نکال سکے۔ مستقبل کا امتحان ایسا ہونا چاہیے جو صرف “یادداشت” نہ ماپے بلکہ “سوچنے” پر زور دے۔ ایسی تعلیم جو اے آئی کے ساتھ چلنے کی صلاحیت رکھتی ہو، نہ کہ اس سے بھاگنے کی۔