Site icon Urdu Ai

 کیا چیٹ جی پی ٹی ہماری تنقیدی سوچ کی صلاحیت کو ختم کر رہا ہے؟ نئی تحقیق نے کیا انکشاف کیا؟

 کیا چیٹ جی پی ٹی ہماری تنقیدی سوچ کی صلاحیت کو ختم کر رہا ہے؟ نئی تحقیق نے کیا انکشاف کیا؟

 کیا چیٹ جی پی ٹی ہماری تنقیدی سوچ کی صلاحیت کو ختم کر رہا ہے؟ نئی تحقیق نے کیا انکشاف کیا؟

کیا مصنوعی ذہانت کے ٹولز، خاص طور پر چیٹ جی پی ٹی، ہمارے سوچنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں؟ ایم آئی ٹی (MIT) کے محققین کی ایک نئی تحقیق نے اس حوالے سے کچھ تشویشناک نتائج پیش کیے ہیں۔ اس تحقیق نے ہمیں ایک گہری سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ کہ جس سہولت کو ہم تیزی سے اپنا رہے ہیں۔ کیا وہ ہمارے دماغی نشوونما کی قیمت پر ہے۔

تحقیق کیسے کی گئی؟

اس تحقیق کے لیے 18 سے 39 سال کی عمر کے 54 افراد کو تین مختلف گروپس میں تقسیم کیا گیا۔ ان گروپس کو ایس اے ٹی (SAT) مضامین لکھنے کا کام دیا گیا۔ ایک گروپ نے اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کیا، دوسرے نے گوگل سرچ انجن کا اور تیسرے نے کسی بھی ٹول کے بغیر صرف اپنے دماغ پر انحصار کیا۔ محققین نے دماغی سرگرمی کی پیمائش کے لیے ای ای جی (EEG) کا استعمال کیا اور جو نتائج سامنے آئے وہ حیران کن تھے۔

نتائج کیا کہتے ہیں؟

نتائج کے مطابق، چیٹ جی پی ٹی استعمال کرنے والے گروپ کے دماغی سرگرمی سب سے کم تھی۔ اور انھوں نے نیورل، لسانی اور رویے کی سطح پر بھی مستقل کم کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ کئی مہینوں کے دوران، چیٹ جی پی ٹی صارفین ہر اگلے مضمون کے ساتھ سست ہوتے گئے۔ اور اکثر مطالعے کے اختتام تک صرف کاپی پیسٹ کرنے پر اکتفا کرنے لگے۔ دوسری جانب، وہ گروپ جس نے صرف اپنے دماغ کا استعمال کیا، ان کے دماغ میں سب سے زیادہ نیورل کنیکٹیوٹی دیکھنے میں آئی، خاص طور پر الفا، تھیٹا اور ڈیلٹا بینڈز میں، جو تخلیقی نظریات، یادداشت اور معنوی پروسیسنگ سے جڑے ہیں۔ اس گروپ نے اپنے کام پر زیادہ ملکیت اور اطمینان کا اظہار بھی کیا۔

ماہرین کی رائے

اس مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایل ایل ایم (Large Language Models) کا استعمال خاص طور پر نوجوان صارفین کے لیے سیکھنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ رپورٹ ابھی تک ہم مرتبہ جائزہ (peer-reviewed) نہیں کی گئی۔ اور اس کا نمونہ بھی نسبتاً چھوٹا ہے۔ لیکن اس کی مرکزی مصنفہ نٹالیہ کوسمینا نے اپنے نتائج کو فوری طور پر جاری کرنا اہم سمجھا۔

کوسمینا کا کہنا ہے کہ وہ چھ سے آٹھ ماہ انتظار نہیں کر سکتی تھیں۔ کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ کوئی پالیسی ساز “چیٹ جی پی ٹی کنڈرگارٹن” جیسی چیزوں کو متعارف کرا دے گا جو کہ ہمارے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب، ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ذیشان خان، جو بچوں اور نوجوانوں کا علاج کرتے ہیں، بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ زیادہ تر بچے اسکول کے کام کے لیے اے آئی پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”ایل ایل ایم پر یہ زیادہ انحصار نوجوانوں کے دماغ کے لیے غیر ارادی نفسیاتی اور علمی نتائج کا باعث بن سکتا ہے“۔

یہ تحقیق اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہمارے دماغ کو زیادہ سے زیادہ اینالاگ طریقے سے تیار ہونے کی ضرورت ہے۔ جس طرح انٹرنیٹ کے ابتدائی دنوں میں انٹرنیٹ کی اہمیت اور خطرات کے بارے میں تعلیم دی گئی تھی، اسی طرح اب اے آئی کے بارے میں بھی تعلیم ضروری ہے۔

کیا مصنوعی ذہانت ایک مفید ذریعہ ہے؟

چیٹ جی پی ٹی کے زیادہ استعمال کے باوجود، یہ امید بھی ہے کہ اگر اسے مناسب طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ سیکھنے کو بڑھا سکتا ہے۔ ایم آئی ٹی میڈیا لیب کے علاوہ دیگر تحقیقی ادارے بھی اے آئی کے اثرات کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ایک ہارورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جنریٹو اے آئی نے لوگوں کو زیادہ کارآمد تو بنایا لیکن ان کی حوصلہ افزائی میں کمی کی۔ اسی طرح، اوپن اے آئی اور وہارٹن اسکول آف بزنس کے تعاون سے تیار کردہ ایک گائیڈ میں اساتذہ کو بتایا گیا ہے کہ وہ کلاس روم میں جنریٹو اے آئی کو کس طرح استعمال کر سکتے ہیں۔

چیٹ جی پی ٹی کا استعمال، اس کے تمام فوائد کے ساتھ، تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔ کیا ہمیں اس بارے میں کچھ قوانین بنانے چاہئیں؟ کیا ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ مستقبل میں اے آئی سے بھرپور معاشرہ کس طرح کا ہوگا؟ تو سوچیں، کیا چیٹ جی پی ٹی کا استعمال آپ کے لیے فائدہ مند ہے یا یہ آپ کی سوچنے کی صلاحیت کو کم کر رہا ہے؟

Exit mobile version