
اوپن اے آئی اور ایم آئی ٹی کا انکشاف: چیٹ جی پی ٹی کا زیادہ استعمال، زیادہ تنہائی؟
ہیلو دوستو! آج ہم ایک ایسی سوچ کے دروازے پر دستک دینے جا رہے ہیں جس پر شاید آپ نے کبھی ٹھہر کر غور نہ کیا ہو۔ ذرا سوچیے جب ہم انسان نہیں، بلکہ ایک مشین سے دل کی بات کرتے ہیں۔ تو کیا وہ باتیں ہمیں قریب لاتی ہیں یا مزید تنہا کر دیتی ہیں؟ یہ کوئی فرضی سوال نہیں۔ بلکہ اوپن اے آئی اور ایم آئی ٹی میڈیا لیب کی ایک حالیہ تحقیق نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے۔ اور نتائج واقعی حیران کن ہیں۔ تو چلیے، اس خاموش مگر گہرے تعلق کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تنہائی اور چیٹ جی پی ٹی کے درمیان ممکنہ تعلق
دو نئی تحقیقات، ایک اوپن اے آئی اور دوسری ایم آئی ٹی میڈیا لیب کی، اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ جتنا زیادہ وقت لوگ چیٹ جی پی ٹی سے بات کرتے ہیں، وہ اتنا ہی زیادہ تنہائی کا شکار محسوس کرتے ہیں۔ ایم آئی ٹی کی تحقیق کے مطابق، ایسے افراد جو دوسروں سے جذباتی طور پر جڑنے کا رجحان رکھتے ہیں، وہ چیٹ جی پی ٹی سے بھی جذباتی طور پر وابستہ ہو جاتے ہیں۔ یہ وابستگی وقتی طور پر تسلی تو دیتی ہے، مگر ساتھ ہی سماجی میل جول میں کمی اور ایک گہرا خالی پن بھی پیدا کر سکتی ہے۔
بات صرف متن تک محدود نہیں
چیٹ جی پی ٹی سے صرف لکھ کر بات کرنے سے زیادہ اثرات دیکھے گئے۔ البتہ جب آواز کے ذریعے بات کی گئی، اور وہ بھی ایک غیرجذباتی لہجے میں، تو صارفین نے کم تنہائی محسوس کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بات چیت ذاتی موضوعات پر کی گئی، تو قلیل مدت میں تنہائی بڑھ گئی۔ جبکہ عمومی یا غیر ذاتی موضوعات پر گفتگو نے صارف کو چیٹ جی پی ٹی پر جذباتی انحصار کی طرف مائل کیا۔
اوپن اے آئی کی دریافت: جذباتی باتیں کم، مگر اثرات نمایاں
اوپن اے آئی نے 4 کروڑ سے زائد چیٹ جی پی ٹی انٹریکشنز کا تجزیہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ زیادہ تر صارفین چیٹ جی پی ٹی سے جذباتی گفتگو نہیں کرتے۔ یہ رجحان صرف اُن صارفین میں نمایاں ہے جو طویل اور مسلسل استعمال کرنے والے ہیں — جنہیں “ہیوی یوزرز” کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اگرچہ اثرات گہرے ہیں، مگر یہ فی الحال ایک محدود طبقے تک محدود ہیں۔
تحقیق کی حدود اور آگے کا راستہ
ان دونوں مطالعات کی ایک اہم حد یہ تھی کہ ان کا دورانیہ محدود تھا ۔ اوپن اے آئی نے 28 دن اور ایم آئی ٹی نے صرف ایک ماہ کے لیے تجزیہ کیا۔ ایم آئی ٹی کی تحقیق میں کنٹرول گروپ کا نہ ہونا بھی ایک اہم کمی تھی۔ تاہم، ان تمام تحفظات کے باوجود، ایک بات واضح ہو چکی ہے: مصنوعی ذہانت سے بات چیت انسان کے ذہنی و جذباتی توازن پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
ایک خاموش تعلق، جو شاید چیخ رہا ہے
یہ حقیقت ہے کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے چیٹ بوٹس ہمیں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی کو آسان بناتے ہیں، اور اکثر جذباتی سہارا بھی دیتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے: کیا ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جہاں انسانوں سے زیادہ مشینوں پر اعتماد ہوگا؟ کیا تنہائی سے بچنے کے لیے ہم مصنوعی رفاقت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ جو وقتی تو ہوتی ہے، مگر دیرپا نہیں؟ یہ سب کچھ سوچنے کے قابل ہے۔ اور شاید، یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں اپنی “انسانیت” کے اصل معنی دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔
آپ کا کیا خیال ہے؟
کیا آپ نے کبھی چیٹ جی پی ٹی سے بات کر کے یہ محسوس کیا کہ آپ کم یا زیادہ تنہا ہو گئے ہیں؟ ہمیں ضرور بتائیں ۔ کیونکہ آپ کی رائے ہی وہ آئینہ ہے جو اس بحث کو مکمل کرتا ہے۔
No Comments