مصنوعی ذہانت کے گاڈ فادر نوبل انعام یافتہ جیفری ہنٹن اور اے آئی کے خدشات۔
دوستو، آج ہم مصنوعی ذہانت کے میدان میں ایک ایسے ماہر کے بارے میں بات کریں گے۔ جنہیں “مصنوعی ذہانت کا گاڈ فادر” کہا جاتا ہے۔ جیفری ہنٹن، جو مشین لرننگ اور نیورل نیٹ ورکس کے بانیوں میں شامل ہیں۔ کو حال ہی میں نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ ہنٹن کی تحقیق نے مصنوعی ذہانت کی بنیاد رکھی، اور آج ہم جو جدید ترین ٹیکنالوجیز استعمال کر رہے ہیں، ان میں ان کا کام بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
نیورل نیٹ ورکس اور ڈیپ لرننگ میں انقلاب
جیفری ہنٹن کا سب سے بڑا کارنامہ نیورل نیٹ ورکس اور ڈیپ لرننگ کے شعبے میں ہے۔ نیورل نیٹ ورکس ایسے سسٹم ہیں جو انسانی دماغ کی طرح کام کرتے ہیں- اور یہ ڈیٹا سے سیکھ کر اپنی کارکردگی میں بہتری لاتے ہیں۔ یہ نیٹ ورکس آج کل چیٹ جی پی ٹی جیسے جدید اے آئی سسٹمز کی بنیاد ہیں، جنہیں ہم روزمرہ میں استعمال کرتے ہیں۔
ڈیپ لرننگ کا عمل انسان کی طرح تجربے سے سیکھنے پر مبنی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان سسٹمز کو روز بروز بہتر کیا جا رہا ہے۔
جیفری ہنٹن کے خدشات
اگرچہ ہنٹن نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں زبردست کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن ان کے کچھ خدشات بھی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مستقبل قریب میں مشینیں انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گی۔ اور یہ صورتحال انسانیت کے لیے بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔
ہنٹن کا کہنا ہے کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت اتنی خودمختار ہو جائے گی کہ وہ انسانوں کے کنٹرول سے باہر ہو جائے گی اور خود اپنے فیصلے کرے گی۔ ان کا ماننا ہے کہ ہمیں ابھی سے سخت قوانین اور ضوابط مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اے آئی کے منفی اثرات سے بچا جا سکے۔
گوگل سے علیحدگی اور خدشات کا اظہار
جیفری ہنٹن نے کئی سال گوگل میں خدمات انجام دیں، لیکن 2023 میں انہوں نے استعفیٰ دے دیا تاکہ وہ اپنے خدشات کو آزادانہ طور پر بیان کر سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ “آنے والا وقت مشینوں کا ہو سکتا ہے، جو انسانوں سے زیادہ ذہین ہوں گی۔”
انہوں نے خبردار کیا کہ مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال سے دنیا میں بڑے خطرات جنم لے سکتے ہیں۔ جیسے کہ طاقتور افراد اس ٹیکنالوجی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
جان ہاپ فیلڈ کا کام
ہنٹن کے ساتھ نوبل انعام حاصل کرنے والے جان ہاپ فیلڈ نے ایک ایسا نیورل نیٹ ورک ایجاد کیا جو انسانی دماغ کے اعصابی نظام کی طرح کام کرتا ہے۔ یہ نیٹ ورک کسی پیٹرن کو یاد رکھ کر اسے مکمل کرتا ہے۔ چاہے وہ پیٹرن نامکمل ہی کیوں نہ ہو۔
ہاپ فیلڈ کا یہ نیٹ ورک آج کی چہرے کی شناخت اور زبانوں کے ترجمے جیسے سسٹمز میں استعمال ہو رہا ہے۔ جو روزمرہ کی ایپلیکیشنز کو بہتر بنا رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات
ہنٹن نے خبردار کیا کہ کچھ عناصر مصنوعی ذہانت کو غلط کاموں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی اتنی طاقتور ہو جائے گی کہ اسے کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ “بدترین صورت میں، کوئی طاقتور شخص مصنوعی ذہانت کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کر سکتا ہے، جو معاشرتی توازن کو بگاڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔”
مستقبل کا منظر
ہنٹن کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی صنعتی انقلاب جیسا اثر ڈالے گی۔ لیکن یہ انقلاب جسمانی نہیں، بلکہ ذہنی صلاحیتوں میں ہوگا۔ وہ خوفزدہ ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی اتنی طاقتور ہو جائے گی کہ انسان اس کے نتائج کو کنٹرول نہیں کر پائے گا۔
ہنٹن کا کہنا ہے کہ اگر انہیں ماضی میں واپس جانے کا موقع ملے، تو وہ یہ کام دوبارہ بھی کریں گے۔ لیکن اس کے ممکنہ خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
مصنوعی ذہانت اور ہماری زندگی
آج ہم اپنی زندگیوں میں مصنوعی ذہانت کو ہر جگہ استعمال کرتے ہیں۔ چاہے وہ انٹرنیٹ پر سرچ ہو، تصاویر ایڈٹ کرنا ہو، یا چیٹ بوٹس کے ذریعے بات چیت۔ یہ سب کچھ مشین لرننگ کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ لیکن جیسے جیسے یہ ٹیکنالوجی آگے بڑھ رہی ہے۔ ہمیں اس کے ممکنہ اثرات کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا تاکہ اس کے نقصانات سے بچا جا سکے۔
نتیجہ
دوستو، جیفری ہنٹن جیسے سائنسدانوں کا کام دنیا کے لیے ایک نعمت ہے۔ لیکن مصنوعی ذہانت کے ساتھ جڑے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا۔ کہ یہ ٹیکنالوجی انسانیت کے فائدے کے لیے استعمال ہو، نہ کہ نقصان کے لیے۔