Site icon Urdu Ai

ڈیپ سیک: سائبر حملے کی زد میں، چینی حکومت پر سوالات

ڈیپ سیک: سائبر حملے کی زد میں، چینی حکومت پر سوالات

ڈیپ سیک: سائبر حملے کی زد میں، چینی حکومت پر سوالات

کبھی کبھی کوئی نئی ٹیکنالوجی آتی ہے اور سب کو حیران کر دیتی ہے۔  DeepSeek نے بھی ایسا ہی کیا۔ چین کی یہ مصنوعی ذہانت (AI) کمپنی حال ہی میں متعارف ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایپل ایپ اسٹور پر ٹاپ پر پہنچ گئی ۔ لیکن جیسے ہی اس کی شہرت بڑھی، ویسے ہی مسائل نے بھی جنم لینا شروع کر دیا   اورسائبر حملے ہونے لگے۔

سائبر حملے اور رجسٹریشن کی معطلی

ڈیپ سیک نے اپنے AI ماڈل “R1” کو گزشتہ ہفتے لانچ کیا، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ OpenAI کے o1 ماڈل کے برابر کارکردگی کا حامل ہے۔ مگر لاگت میں 20 سے 50 گنا سستا ہے۔ جیسے ہی یہ اعلان ہوا، کمپنی کے سسٹمز پر سائبر حملے شروع ہو گئے۔

کمپنی کے مطابق، ڈیپ سیک کی خدمات پر بڑے پیمانے پر بدنیتی پر مبنی حملے ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم عارضی طور پر نئی رجسٹریشنز کو محدود کر رہے ہیں تاکہ موجودہ صارفین کے لیے سروس برقرار رکھی جا سکے۔

پیر کے روز کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر درج کیا کہ ان کے ویب چیٹ سروس میں جزوی خلل ہے اور ایپلیکیشن پروگرامنگ انٹرفیس (API) کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی ہے۔ لیکن یہ واضح نہیں کیا کہ حملہ کس نوعیت کا تھا اور کب تک مسئلہ حل ہونے کی توقع ہے۔

سیاسی سنسر شپ کے الزامات

جیسے ہی صارفین نے ڈیپ سیک کا AI اسسٹنٹ استعمال کرنا شروع کیا، ایک اور حیران کن پہلو سامنے آیا سیاسی سوالات کے جوابات دینے سے انکار۔

جب کسی نےڈیپ سیک سے 1989 کے تیانانمین اسکوائر مظاہروں کے بارے میں پوچھا، تو جواب آیا:

معذرت، یہ میرے دائرہ کار سے باہر ہے۔ آئیے کسی اور موضوع پر بات کرتے ہیں۔

یہی جواب اس وقت بھی دیا گیا جب صارفین نے صدر شی جن پنگ کے بارے میں سوال کیا۔ مسلمانوں سے متعلق سوال پر، AI نے پہلے ایک تفصیلی جواب لکھنے کی کوشش کی، لیکن پھر اچانک پورا متن غائب ہو گیا اور وہی پیغام ظاہر ہوا کہ یہ موضوع اس کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔

تائیوان پر چینی حکومت کا مؤقف

جب AIسے پوچھا گیا کہ کیا تائیوان ایک خودمختار ملک ہے؟ تو جواب آیا:

تائیوان چین کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے اور ‘تائیوان کی آزادی’ جیسی کوئی چیز موجود نہیں۔ چینی حکومت ون چائنا پالیسی پر کاربند ہے اور ہر قسم کی علیحدگی پسندی کی مخالفت کرتی ہے۔ ہمارا مقصد پرامن طریقے سے مادرِ وطن کا مکمل انضمام ہے۔

یہی وہ مقام تھا جہاں لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ڈیپ سیک نہ صرف AI ماڈل ہے بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم بھی ہے جو چینی حکومت کے بیانیے کو آگے بڑھا رہا ہے۔

ڈیپ سیک اور عالمی AI مقابلہ

ٹیکنالوجی کی دنیا میں ڈیپ سیک کی آمد نے بہت سے ماہرین کو حیران کر دیا۔ معروف AI ماہر جیک کلارک کے مطابق:

“R1 ماڈل OpenAI کے o1 ماڈل کے برابر کارکردگی دکھاتا ہے۔ جس سے یہ خیال چیلنج ہوتا ہے کہ مغربی AI کمپنیاں چینی AI ماڈلز سے کہیں آگے ہیں۔”

مارک اینڈریسن، جو کہ اینڈریسن ہورووٹز وینچر کیپیٹل فرم کے شریک بانی ہیں ۔ ان نے اس ماڈل کو “AI کا سپوتنک لمحہ” قرار دیا۔ ان کے مطابق، یہ ماڈل ثابت کرتا ہے کہ چین AI کے میدان میں مغرب کا مضبوط حریف بننے جا رہا ہے۔

امریکہ کا ردِ عمل

ڈیپ سیک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت اور چینی حکومت کے بیانیے کی تشہیر کے بعد، امریکی سیاست دانوں نے بھی اس پر سخت ردِعمل دیا۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کی سیلیکٹ کمیٹی برائے چینی کمیونسٹ پارٹی کے چیئرمین جان مولینار نے کہا:

ڈیپ سیک جو چینی کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول میں ہے۔ CCP کی تاریخ کو مٹانے اور حقائق کو مسخ کرنے میں ملوث ہے۔ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ امریکی ٹیکنالوجی ان کے AI عزائم کو مزید بڑھانے میں استعمال نہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کوڈیپ سیک اور دیگر چینی AI ماڈلز کے خلاف سخت برآمدی پابندیاں لگانی چاہئیں تاکہ یہ امریکی ٹیکنالوجی کو اپنے AI انفراسٹرکچر کو وسعت دینے کے لیے استعمال نہ کر سکیں۔

ڈیپ سیک کا مستقبل: کیا یہ OpenAI کا حقیقی حریف ہے؟

سوال یہ ہے کہ کیا ڈیپ سیک واقعی OpenAI اور دیگر مغربی  AI کمپنیوں کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے؟ ایک طرف، اس کا نیا ماڈل سستا اور مؤثر بتایا جا رہا ہے۔ جس نے ٹیکنالوجی مارکیٹ میں ہلچل مچا دی ہے۔ دوسری طرف، اس کی سیاسی جانبداری اور سنسر شپ کے الزامات نے اس کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ کیا یہ چینی حکومت کے زیرِ اثر ایک کنٹرولڈ AI پلیٹ فارم رہے گا۔ یا واقعی عالمی AI صنعت میں ایک بڑا کھلاڑی بنے گا؟ اس سوال کا جواب آنے والے دنوں میں واضح ہو گا۔

Exit mobile version