
گوگل کی نئی پالیسی:اے آئی، ہتھیار اور نگرانی ایک نیا موڑ؟
یہ ایک عام دن تھا، لیکن پھر ایک ایسی خبر آئی جس نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہلچل مچا دی۔ گوگل، جس نے 2018 میں اپنی اے آئی پالیسی میں واضح اعلان کیا تھا۔ کہ وہ مصنوعی ذہانت کو ہتھیاروں اور نگرانی کے نظام میں استعمال نہیں کرے گا، اب اپنے الفاظ سے پیچھے ہٹ چکا ہے۔
نگرانی اور ہتھیاروں کے حوالے سے نیا مؤقف
واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، گوگل نے اپنی پالیسی میں خاموشی سے ایک بڑی تبدیلی کر دی ہے۔ وہ سیکشن، جس میں واضح طور پر لکھا تھا۔ کہ کن شعبوں میں اے آئی کا استعمال ممنوع ہوگا۔ اچانک غائب ہو گیا۔ اس کی جگہ ایک نیا اور زیادہ عمومی سیکشن آیا ہے۔ جس کا عنوان ہے: “ذمہ دارانہ ترقی اور نفاذ۔” سننے میں تو یہ اچھا لگتا ہے، لیکن حقیقت میں؟
اب گوگل کہتا ہے کہ وہ مناسب انسانی نگرانی، مکمل تحقیق، اور رائے شماری کے میکانزم کے ذریعے اے آئی کے استعمال کو یقینی بنائے گا۔ مگر سوال یہ ہے: کیا یہ وضاحت کافی ہے؟ پہلے، کمپنی نے دوٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ وہ اے آئی کو ایسے ہتھیاروں میں استعمال نہیں کرے گا۔ جن کا مقصد یا استعمال براہ راست انسانوں کو نقصان پہنچانا ہو۔ اسی طرح، نگرانی کے اے آئی کے بارے میں بھی کمپنی کا مؤقف بالکل واضح تھا۔ وہ بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والی کسی بھی ٹیکنالوجی کو ترقی نہیں دے گا۔
گوگل کی صفائی اور ردعمل
جب گوگل کے ترجمان سے اس معاملے پر وضاحت طلب کی گئی۔ تو انہوں نے براہ راست جواب دینے کے بجائے کمپنی کے بلاگ پوسٹ کا حوالہ دیا۔ اس بلاگ میں، گوگل ریسرچ لیبز کے سینئر نائب صدر جیمز منیکا اور ڈیپ مائنڈ کے سی ای او ڈیمس ہسبس نے AI کی “جنرل پرپز ٹیکنالوجی” کے طور پر ترقی کی وضاحت دی اور کہا کہ پالیسی میں تبدیلی اس ضرورت کے تحت کی گئی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوری ممالک کو AI کی ترقی میں رہنمائی کرنی چاہیے۔ جہاں بنیادی اقدار جیسے آزادی، مساوات، اور انسانی حقوق کا احترام شامل ہو۔” انہوں نے لکھا، “ہماری AI پالیسیز کے تحت، ہم تحقیق اور ایپلیکیشنز پر کام جاری رکھیں گے۔ جو ہماری سائنسی مہارت اور عالمی قوانین و انسانی حقوق کے اصولوں سے مطابقت رکھتی ہوں۔
ماضی کے متنازعہ معاہدے
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب گوگل کی فوجی معاہدوں میں دلچسپی پھر سے بڑھ رہی ہے۔ 2018 میں جب گوگل نے اپنی AI گائیڈ لائنز جاری کیں، اس وقت کمپنی کو “پروجیکٹ میون” نامی متنازعہ معاہدے کے باعث شدید مخالفت کا سامنا تھا۔ ہزاروں ملازمین نے اس کے خلاف دستخط کیے، جبکہ درجنوں نے گوگل سے استعفیٰ دے دیا۔
لیکن 2021 میں، گوگل نے امریکی محکمہ دفاع کے ساتھ “جوائنٹ وار فائٹنگ کلاؤڈ کیپیبیلیٹی” کے نام سے ایک معاہدے میں شمولیت کی کوشش کی۔ 2024 کے آغاز میں، واشنگٹن پوسٹ کی ایک اور رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ گوگل کے ملازمین اسرائیل کی وزارت دفاع کے ساتھ مل کر AI کے استعمال کو بڑھانے کے لیے کام کر رہے تھے۔
سوالیہ نشان
اب سوال یہ ہے: کیا گوگل کا یہ نیا رویہ تکنیکی ترقی کی راہ میں ایک قدم ہے، یا پھر یہ ایک خطرناک راستہ ہے جو ہمیں کسی اور سمت لے جائے گا؟ آپ کا کیا خیال ہے؟ کمنٹس میں اپنی رائے ضرور دیں!
No Comments