
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق انسانی ترقی کی رفتار 35 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے
مصنوعی ذہانت اور انسانی ترقی: ایک نئی سمت یا بڑھتا ہوا فرق؟ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے UNDP نے اپنی تازہ ترین عالمی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں انسانی ترقی کی رفتار تشویشناک حد تک سست ہو چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2024 کا سال ترقی کے اعتبار سے نچلے ترین سطح پر جا پہنچا ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہم 2020 اور 2021 کے عالمی بحران کو نکال بھی دیں۔ تو بھی یہ پیش رفت 1990 کے بعد سے سب سے کمزور قرار دی گئی ہے۔
یہ رپورٹ صرف اعداد و شمار کی جھلک نہیں بلکہ ایک ایسا آئینہ ہے جو ہمیں موجودہ ترقیاتی راستوں اور اُن چیلنجز کی نشاندہی کرتا ہے جو مستقبل کی پالیسیوں پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
ترقی کی راہ میں رکاوٹیں اور بڑھتا ہوا عالمی خلا
UNDP کی رپورٹ اس جانب توجہ دلاتی ہے کہ موجودہ ترقیاتی ماڈل دنیا میں امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ بڑھا رہا ہے۔ خاص طور پر کم ترقی یافتہ ممالک میں معاشی دباؤ، قرضوں کا بوجھ اور ملازمت کے کم مواقع انسانی ترقی کے اشاریے کو متاثر کر رہے ہیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر فوری اور فیصلہ کن اقدامات نہ کیے گئے تو ترقی کی یہ سست روی ایک “نیا معمول” بن سکتی ہے، اور یوں 2030 تک عالمی انسانی ترقی کے اہداف ایک خواب بن کر رہ جائیں گے۔
کیا مصنوعی ذہانت انسان دوست ٹیکنالوجی ثابت ہو سکتی ہے؟
رپورٹ کا عنوان “چُناؤ کا معاملہ: مصنوعی ذہانت کے دور میں انسان اور اُن کے امکانات” اس نئی سمت کی طرف اشارہ کرتا ہے جہاں اے آئی کو انسانی ترقی کا آلہ سمجھا جا رہا ہے، خطرہ نہیں۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف حصوں میں لوگ اے آئی سے ڈرنے کے بجائے اُسے ایک موقع سمجھتے ہیں۔
عالمی سروے میں تقریباً 70 فیصد افراد نے کہا کہ اے آئی ان کی پیداواری صلاحیت کو بڑھائے گی، جب کہ دو تہائی افراد کو اُمید ہے کہ وہ اگلے سال کے اندر تعلیم، صحت یا ملازمت کے کسی نہ کسی شعبے میں اے آئی کا استعمال کریں گے۔
ترقی کے نئے راستے: اگر صحیح فیصلے کیے جائیں
اقوام متحدہ رپورٹ تجویز کرتی ہے کہ اگر اے آئی کو انسان مرکز ترقی کے اصولوں پر ڈیزائن اور نافذ کیا جائے۔ یعنی تعلیم، صحت اور معیشت کے نظام کو اس کے مطابق ڈھالا جائے تو یہ ٹیکنالوجی نہ صرف روزگار بلکہ خود انسانی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ بنیادی سہولیات جیسے بجلی، انٹرنیٹ اور تربیت تک رسائی کو یقینی بنایا جائے، خاص طور پر اُن خطوں میں جہاں AI کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
اے آئی کی جمہوریت کاری: حقیقت یا خواہش؟
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہر پانچ میں سے ایک شخص پہلے ہی اے آئی استعمال کر رہا ہے۔ خاص طور پر کم اور درمیانے درجے کے HDI والے ممالک میں دو تہائی افراد اگلے سال اے آئی اپنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
یہ واضح کرتا ہے کہ اصل مسئلہ اب اے آئی تک رسائی کا نہیں بلکہ اس کے مؤثر استعمال کا ہے۔ حکومتوں اور پالیسی ساز اداروں کو چاہیے کہ وہ ٹیکنالوجی کے فروغ کے ساتھ ساتھ انسانی صلاحیتوں کے فروغ پر بھی یکساں توجہ دیں۔
فیصلہ آج کا، اثر کل کا
رپورٹ کے ڈائریکٹر پیڈرو کونسے ساؤ کے مطابق ہم جس سمت میں آج فیصلے کریں گے، وہی مستقبل میں اے آئی کے اثرات کا تعین کرے گی۔ اگر مساوی مواقع، انسانی وقار اور بااختیار بنانے کی پالیسیوں پر زور دیا جائے تو اے آئی کسان، طالب علم، اساتذہ اور چھوٹے کاروباری افراد کے لیے ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے نہ کہ خطرہ۔
کیا کرنا چاہیے؟ ماہر کی رائے
اس رپورٹ کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ ترقی اب محض GDP یا اعداد و شمار کا کھیل نہیں بلکہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔
آئیے ہم سوچیں:
کیا ہم اے آئی کو ایک دشمن کے طور پر دیکھیں یا ایک ساتھی کے طور پر؟ کیا ہماری پالیسیاں انسان کو مرکز میں رکھتی ہیں یا ٹیکنالوجی کو؟ یہ سوالات آج کے ہیں۔ لیکن ان کے جوابات آنے والی نسلوں کا مستقبل طے کریں گے۔
یہ معلومات UNDP کی آفیشل بلاگ رپوٹ سے حاصل کی گئی ہے۔
No Comments