
سعودی عرب کا اے آئی انقلاب صدر ٹرمپ کا تاریخی دورہ 2025
اے آئی صرف ٹول نہیں، اب طرزِ زندگی ہے
دو روز پہلے سعودی عرب میں ایک غیر معمولی منظر دیکھنے کو ملا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، ایلون مسک، سیم آلٹمن اور دیگر معروف شخصیات سعودی عرب میں جمع ہوئیں۔ ان کے ساتھ موضوع تھا، اے آئی۔ یہ کوئی کانفرنس یا محض تصویری موقع نہیں تھا بلکہ مستقبل کے ایک ایسے منصوبے کی بنیاد رکھی گئی جس کا اثر نہ صرف سعودی عرب بلکہ پاکستان جیسے ممالک پر بھی پڑے گا۔
قیصر رونجھا کے مطابق، جو اس پورے معاملے پر اردو اے آئی چینل پر بات کر رہے تھے: اے آئی صرف ٹولز یا ایپلی کیشنز کا نام نہیں، بلکہ یہ اب ہمارا طرزِ زندگی بننے جا رہا ہے۔
سعودی عرب کی پہلی مقامی اے آئی کمپنی
شہزادہ محمد بن سلمان نے جس کمپنی کا اعلان کیا، اس کا نام ہے “Humane”۔ کمپنی کا نصب العین ہے: “The End of Limits” یعنی محدودیتوں کا خاتمہ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ کمپنی صرف ایک ایپ بنائے گی۔ بلکہ یہ ایک مکمل اے آئی انفراسٹرکچر تیار کرے گی:
-
ڈیٹا سینٹرز
-
عربی زبان کے ماڈلز
-
اور عالمی معیار کے تحقیقی مراکز
یہ اقدام کسی حد تک فیس بک کی اُس حکمتِ عملی سے مشابہت رکھتا ہے جس میں ایک سادہ ایپ نے خود کو اے آئی کی عالمی سلطنت میں بدل دیا۔
امریکا کا کردار اور پابندیوں میں نرمی
یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے جن چپس کی برآمد پر پابندی عائد کی تھی، وہ اب ٹرمپ حکومت کے ذریعے ختم کر دی گئی ہے۔ نتیجتاً Nvidia، AMD اور دیگر کمپنیز کو سعودی عرب کے ساتھ براہِ راست شراکت داری کی اجازت مل چکی ہے۔ ایسا ہی ایک قدم Veo 2 کی ریلیز میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جہاں اے آئی کو ویڈیو تخلیق کا نیا راستہ بنایا گیا۔
صرف سعودی عرب نہیں، پاکستان بھی اثر انداز ہوگا
پاکستان سے لاکھوں لوگ ہر سال سعودی عرب کام کے لیے جاتے ہیں۔ اب ان کی نوعیت بدل سکتی ہے۔ اب صرف محنت نہیں، ٹیکنیکل مہارت رکھنے والوں کی مانگ بڑھے گی۔ یہ بات قیصر رونجھا نے خاص طور پر ویڈیو میں اجاگر کی۔ ان کے مطابق سعودی عرب کو ایک ایسا ہیومن ریسورس درکار ہے جو اے آئی سسٹمز کو سمجھتا ہو۔ یہ موقع پاکستانی نوجوانوں کے لیے ہے کہ وہ سیکھنے کا عمل شروع کریں، چاہے وہ صرف تین سوالوں سے ہو یا مکمل ماسٹر کلاس کے ذریعے۔
بین الاقوامی سفارتکاری یا ٹیکنالوجی کی جنگ؟
ایک پہلو جو ویڈیو میں بار بار دہرایا گیا، وہ یہ تھا کہ یہ صرف تجارتی معاہدے نہیں، بلکہ ٹیکنیکل سفارتکاری ہے۔ امریکا اور چین کی بڑھتی ہوئی مسابقت میں سعودی عرب ایک اسٹریٹیجک شراکت دار کے طور پر ابھرا ہے۔ خلیج میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے امریکا کو ایک مضبوط اتحادی کی ضرورت ہے اور شاید سعودی عرب سے بہتر کوئی نہیں۔
آخر میں سوال صرف یہ ہے:
کیا ہم تیار ہیں؟ قیصر رونجھا نے درست کہا:
اے آئی ہماری طرزِ زندگی، گورننس اور روزگار کے نظام کو بدل رہی ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم بھی خود کو بدلیں۔ اے آئی سیکھنا شروع کریں۔
No Comments