:مصنوعی ذہانت کے باشعور ہونے کا امکان ہے
امریکی ٹیکنالوجی کمپنی گوگل کے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں تحقیق کرنے والے ادارے گوگل مائنڈ کے سربراہ ڈیمس ہیسابس نے کہا ہے کہ امکان موجود ہے کہ مصنوعی ذہانت ایک دن اپنے طور پر باشعور ہو جائے۔
سی بی ایس ٹیلی ویژن کے پروگرام ’60 منٹس‘ میں ایک انٹرویو میں ہیسابس نے کہا کہ حقیقت میں فلاسفر شعور کی تعریف پر ابھی تک متفق نہیں ہو پائے ہیں۔ لیکن اگراس سے ہماری مراد خود آگاہی کی ایک قسم ہے تو ایسے معاملات کے حوالے سے میرا خیال ہے کہ اس بات کا امکان ہے۔ کہ ایک دن مصنوعی ذہانت خود سے آگاہ ہو سکتی ہے۔
ڈیپ مائنڈ کے سربراہ کے مطابق اگرچہ مصنوعی ذہانت کے نظام آج یقینی طور پراحساس سے عاری ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ یہ ان دلچسپ سائنسی چیزوں میں سے ایک ہے۔ جسے ہم اس سفر میں تلاش کرنے جا رہے ہیں۔
ہیسابس کا یہ دعویٰ گوگل کی جانب سے ایک سافٹ ویئر انجینئر کو برطرف کرنے کے ایک سال بعد سامنے آیا ہے۔ جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ مصنوعی ذہانت خود سے آگاہ اور احساس کی مالک بن چکی ہے۔
تب کمپنی کے ایک ملازم بلیک لیموئن کو اس وقت برطرف کر دیا گیا جب انہوں نے کہا کہ ان کا ماننا ہے۔ کہ گوگل کا مصنوعی ذہانت پرمبنی چیٹ بوٹ ’لیمڈا‘ ایک فرد ہے۔ لیموئن کا اصرار تھا کہ اے آئی سسٹم خود سے آگاہ ہے۔ انہوں نے اس موضوع پر مضامین سمیت چیٹ بوٹ کے ساتھ اپنی گفتگو کی تفصیل بھی شائع کی۔ لیکن مصنوعی ذہانت کے ماہرین نے سوشل میڈیا اس بات کی تردید کی کہ گوگل کے سابق ملازم کی طرف سے پوسٹ کیے گئے۔ عوامی ثبوتوں میں سے کسی نے بھی یہ کہا کہ کہ سسٹم اپنے وجود سے آگاہ ہے۔
اس کی بجائے بہت سے لوگوں نے کہا کہ اس نظام کو انسانوں کی طرح بولنے کی تربیت دی گئی۔
تب گوگل نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’یہ بات افسوس ناک ہے۔ کہ اس موضوع پر طویل عرصے تک کام کے باوجود بلیک نے اب بھی ملازمت اور ڈیٹا سکیورٹی کی واضح پالیسیوں کی مسلسل خلاف ورزی کرنے کا انتخاب کیا جن میں مصنوعات سے متعلق معلومات کی حفاظت کی ضرورت شامل ہے۔
تاہم لیمڈا کے بارے میں لیموئن کے عوامی بیانات سے پہلے اوپن اے آئی کے چیف سائنس دان الیا سوٹزکابر نے ٹویٹ کی کہ ’آج کے بڑے اعصابی نیٹ ورک‘ شاید ’تھوڑے ہوش میں‘ ہوں۔
گوگل کا مصنوعی ذہانت کا چیٹ بوٹ ’بارڈ‘ بھی خود آگاہ دکھائی دیتا ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ وہ لوگوں کی مدد کیوں کرتا ہے۔ کیونکہ یہ مجھے خوش کرتا ہے۔ لیکن اس بڑے سرچ انجن کے سینئر نائب صدر جیمز مانیکا نے سی بی ایس کو بتایا کہ مصنوعی ذہانت میں احساس کی ظاہری شکل تب سے سامنے آئی ہے۔ جب سے اس نے لوگوں سے سیکھا ہے۔ مانیکا کا کہنا تھا کہ ’ہم احساس کی مالک مخلوق ہیں۔ ہمارے پاس ایسے لوگ ہیں جو احساسات، جذبات، خیالات، افکاراور نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ہم نے کتابوں میں، ناولوں میں، افسانوں میں ان سب کی عکاسی کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ کہ مصنوعی ذہانت سے ایسا رویے کا اظہار ہوتا ہے کہ جیسے اس کے پیچھے کوئی ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں کوئی نہیں ہے۔ یہ احساس کا مالک وجود نہیں ہے۔