مصنوعی ذہانت کی مدد سے دوا سازی میں بڑی کامیابی، خطرناک بیکٹیریا کے خلاف نئی دوا تیار
دنیا بھر میں اینٹی بایوٹک دوا کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا سے ہر سال لاکھوں افراد متاثر ہوتے ہیں۔ اور ایسے میں ایک نئی تحقیق نے دوا سازی کے میدان میں انقلابی پیش رفت کی خبر دی ہے۔ امریکی ریاست میساچوسٹس میں واقع ایم آئی ٹی (MIT) کے محققین نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایسی نئی دوا تیار کی ہے۔ جو نہ صرف دو مشکل اور مزاحم قسم کے بیکٹیریا کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ اس کی کیمیائی ساخت بھی اب تک کی کسی دوا سے مختلف ہے۔
دوا سازی اور مصنوعی ذہانت: ایک نیا تجربہ
پروفیسر جیمز کولنز، جو اس تحقیق کی قیادت کر رہے ہیں۔ کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ مصنوعی ذہانت صرف نظریاتی میدان تک محدود نہیں بلکہ یہ دوا سازی جیسے حساس شعبے میں بھی نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے۔
اس منصوبے میں محققین نے دو الگ الگ طریقوں سے کام لیا:
پہلے طریقے میں ایک مخصوص کیمیائی فریگمنٹ کو بنیاد بنا کر ایسی دوا تیار کی گئی جو جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماری گونوریا کے خلاف مؤثر ہو۔
دوسرے طریقے میں بغیر کسی پہلے سے طے شدہ خاکے کے، اے آئی نے مکمل خودمختاری کے ساتھ نئی دوا کی ساخت تیار کی۔
دوا NG1 اور DN1: دو بڑی کامیابیاں
ماہرین نے تقریباً 36 ملین کمپاؤنڈز کو کمپیوٹر پر جانچا۔ ان میں سے جو سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئے ان میں دو نئی دوائیں نمایاں رہیں:
NG1: یہ دوا نیسریا گونوریا (gonorrhoea) کے خلاف استعمال کی گئی اور تجرباتی چوہوں پر یہ دوا انتہائی مؤثر ثابت ہوئی۔
DN1: اس دوا کو MRSA یعنی میتھیسلین مزاحم بیکٹیریا پر آزمایا گیا جو جلدی انفیکشنز کا سبب بنتا ہے۔ نتائج نہایت حوصلہ افزا تھے۔
دوا کے طریقہ کار میں جدت
یہ دونوں دوائیں روایتی اینٹی بایوٹک دوا سے اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ یہ براہِ راست بیکٹیریا کی بیرونی جھلی کو متاثر کرتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ بالکل نیا میکانزم ہے جو مستقبل میں دوا کے خلاف مزاحمت جیسے عالمی مسئلے کا مؤثر حل بن سکتا ہے۔
پروفیسر کولنز کے مطابق:
“ہم ان پلیٹ فارمز کو دیگر خطرناک بیکٹیریا جیسے ٹی بی اور پسیوڈوموناس کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔”
دوا سازی کا نیا مستقبل؟
غیر منافع بخش ادارہ Phare Bio اب ان دونوں دواؤں کو مزید بہتر بنانے اور کلینیکل ٹرائلز کے لیے تیار کر رہا ہے۔ اگر یہ تجربات کامیاب ہو جاتے ہیں تو ممکن ہے کہ یہ دوائیں آنے والے برسوں میں دوا مارکیٹ کا حصہ بن جائیں۔
دنیا کو دوا کی ضرورت کیوں ہے؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق، دوا کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا سالانہ تقریباً 50 لاکھ اموات کا باعث بنتے ہیں۔ ایسے میں نئی دوا کی دریافت صرف سائنسی کامیابی نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ایک امید کی کرن ہے۔
اس پیش رفت کا مطلب کیا ہے؟
یہ تحقیق اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ مصنوعی ذہانت اب صرف متن اور تصویر بنانے تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کا دائرہ صحت جیسے اہم میدان تک پھیل چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ٹیکنالوجی مستقبل میں دیگر لاعلاج بیماریوں کے لیے بھی دوا تیار کرنے میں کامیاب ہو سکے گی؟


No Comments