کیا یہ اے آئی سٹیتھو سکوپ فالج اور ہارٹ فیلیر کی بروقت نشاندہی کر پائے گا؟
دنیا بھر میں دل کی بیماریاں اور فالج سب سے بڑی اموات کی وجوہات میں شمار ہوتی ہیں۔ ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ زیادہ تر مریضوں میں ان بیماریوں کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ جب علامات شدید ہو جاتی ہیں یا وہ ہنگامی حالت میں اسپتال پہنچتے ہیں۔ اس تاخیر کی وجہ سے بروقت علاج ممکن نہیں رہتا اور پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ اسی مسئلے کا حل اب ایک نئی طبی ایجاد کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جسے اے آئی سٹیتھو سکوپ کہا جا رہا ہے۔ یہ آلہ نہ صرف دل کی دھڑکن اور خون کے بہاؤ کے باریک فرق سن سکتا ہے بلکہ ایسے اشارے بھی پکڑ لیتا ہے جو انسانی کانوں کے لیے ناقابلِ سماعت ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مریض کو ابتدائی مرحلے پر درست تشخیص ملے اور فوری علاج شروع ہو سکے۔
روایتی سٹیتھو سکوپ کی تاریخ دو سو سال پرانی ہے۔ سنہ 1816 میں رینی لینیک نے پہلا سٹیتھو سکوپ بنایا جو آج تک ڈاکٹرز کے لیے بنیادی آلہ مانا جاتا ہے۔ مگر انسانی کان دل کی باریک دھڑکنوں یا خون کے بہاؤ میں چھپی تبدیلیوں کو مکمل طور پر نہیں سن سکتے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اب ایک جدید ورژن سامنے آیا ہے جو بظاہر تاش کے پتے جتنا چھوٹا ہے۔ اس میں حساس مائیکروفون لگے ہیں جو دل کے برقی سگنلز ریکارڈ کرتے ہیں اور یہ ڈیٹا کلاؤڈ پر بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں ایک خاص طور پر تربیت یافتہ اے آئی ماڈل ہزاروں مریضوں کے ڈیٹا سے سیکھے ہوئے پیٹرنز کی بنیاد پر فوری تجزیہ کرتا ہے۔ اس تجزیے سے چند سیکنڈز میں یہ پتہ چل سکتا ہے کہ مریض کو ہارٹ فیلیر ہے، دل کے والو میں مسئلہ ہے یا پھر دل کی دھڑکن غیر معمولی انداز میں چل رہی ہے۔
ہارٹ فیلیر کی بروقت نشاندہی اس آلے کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق نے واضح کیا کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت ہارٹ فیلیر کے مریضوں میں بیماری کا بارہ ماہ کے اندر پتہ چلنے کا امکان 2.33 گنا زیادہ تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مریض جو عام حالات میں نظر انداز ہو جاتے، اس سٹیتھو سکوپ کے ذریعے جلد شناخت ہو گئے اور ان کے علاج کے امکانات کئی گنا بہتر ہو گئے۔
اسی طرح یہ آلہ دل کی دھڑکن میں ہونے والی بے ترتیبی یعنی Arrhythmia کو بھی بروقت پکڑ لیتا ہے۔ یہ ایک خطرناک مسئلہ ہے کیونکہ بظاہر اس کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں مگر یہ براہِ راست فالج کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔ تحقیق میں پایا گیا کہ اے آئی سٹیتھو سکوپ کی مدد سے Arrhythmia کی تشخیص عام طریقوں کے مقابلے میں 3.5 گنا زیادہ ممکن تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن مریضوں کو ابھی تک پتہ نہیں چلتا تھا کہ ان کا دل غیر معمولی انداز میں دھڑک رہا ہے، وہ بروقت پہچانے جا سکتے ہیں اور اس طرح فالج جیسے بڑے حملے سے بچایا جا سکتا ہے۔
دل کے والو کی بیماری بھی ایک اور بڑا خطرہ ہے جو اکثر دیر سے سامنے آتا ہے۔ اس آلے نے والو کی بیماری کے پتہ لگانے کے امکانات کو تقریباً دو گنا بڑھا دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کو صرف اسپیشلائزڈ ٹیسٹ پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ عام کلینک میں بھی ابتدائی نشاندہی ممکن ہو سکے گی۔
یہ نتائج کسی ایک چھوٹی تحقیق تک محدود نہیں ہیں۔ لندن میں امپیریل کالج ہیلتھ کیئر این ایچ ایس ٹرسٹ اور امپیریل کالج لندن کی ٹیم نے 96 سرجریز کے 12,000 سے زیادہ مریضوں پر اس ٹیکنالوجی کو آزمایا۔ ان مریضوں کے نتائج کا موازنہ 109 سرجریز کے مریضوں سے کیا گیا جہاں یہ ٹیکنالوجی استعمال نہیں ہوئی۔ ڈیٹا نے واضح دکھایا کہ اے آئی سٹیتھو سکوپ نہ صرف قابلِ عمل ہے بلکہ مریضوں کے لیے جان بچانے والا آلہ بن سکتا ہے۔
ماہرین بھی اس ایجاد کو مستقبل کا سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔ برٹش ہارٹ فاؤنڈیشن کی کلینیکل ڈائریکٹر اور کنسلٹنٹ کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر سونیا بابو نارائن کے مطابق یہ ایجاد اس بات کی بہترین مثال ہے کہ کس طرح 200 سال پرانے آلے کو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق بنایا جا سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اکثر مریض اس وقت پہچانے جاتے ہیں جب وہ ایمرجنسی وارڈ میں پہنچتے ہیں۔ اگر پہلے ہی مرحلے پر تشخیص ہو جائے تو نہ صرف علاج مؤثر ہوگا بلکہ مریض زیادہ بہتر اور طویل زندگی گزار سکے گا۔
تحقیق کے نتائج میڈرڈ میں ہونے والی یورپی سوسائٹی آف کارڈیالوجی کی سالانہ کانفرنس میں پیش کیے گئے۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی دل کی کانفرنس ہے جس میں عالمی ماہرین شریک ہوتے ہیں۔ مستقبل کا منصوبہ یہ ہے کہ اس آلے کو جنوبی لندن، سسیکس اور ویلز کے جنرل پریکٹسز میں متعارف کرایا جائے تاکہ زیادہ مریض اس ٹیکنالوجی سے مستفید ہوں۔ اگر کامیاب رہا تو امکان ہے کہ یہ آلہ دنیا بھر کے اسپتالوں اور کلینکس میں عام ہو جائے گا۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ہر سال 1 کروڑ 79 لاکھ افراد دل کی بیماریوں کے باعث موت کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر اے آئی سٹیتھو سکوپ بڑے پیمانے پر استعمال ہوا تو ان میں سے لاکھوں جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ مزید یہ کہ محققین مستقبل میں اس آلے میں اضافی سینسر شامل کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں جیسے خون میں آکسیجن کی سطح، بلڈ پریشر اور دیگر بایومیٹرک اشارے تاکہ مریض کی مکمل صحت کی تصویر سامنے آ سکے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اے آئی سٹیتھو سکوپ صرف ایک آلہ نہیں بلکہ مستقبل کی صحت کی دیکھ بھال کا نیا دور ہے۔ یہ بروقت تشخیص کو ممکن بناتا ہے، علاج کو بہتر کرتا ہے اور فالج اور ہارٹ فیلیر جیسے خطرناک مسائل کو شروع ہی میں روکنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اگر اس ٹیکنالوجی کو عام کیا گیا تو یہ یقینی طور پر طبی دنیا میں ایک انقلابی سنگِ میل ثابت ہوگا۔


No Comments