
سننے میں یہ عجیب لگے گا، لیکن یہ الفاظ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک، گوگل ڈیپ مائنڈ کے سی ای او ڈیمس ہسابس کے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ: ’اے جی آئی آ رہی ہے، اور شاید بہت جلد آ رہی ہے۔ مگر مجھے نہیں لگتا کہ معاشرہ اس کے لیے تیار ہے۔‘
اگر آپ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو مصنوعی ذہانت کے بڑھتے رجحان سے متاثر تو ہیں لیکن شاید اس کی گہرائی کو پوری طرح نہیں سمجھتے، تو یہ بلاگ آپ کے لیے ہے۔
مصنوعی عمومی ذہانت یا اے جی آئی وہ سطح ہے جہاں مشینیں انسانوں کی طرح سیکھ سکتی ہیں، سوچ سکتی ہیں اور فیصلے کر سکتی ہیں۔ اوپن اے آئی کے سربراہ سیم آلٹمین نے پچھلے دنوں دعویٰ کیا کہ ان کی کمپنی اگلے پانچ برس میں اے جی آئی تک پہنچ سکتی ہے۔ مگر ان کی حیران کن بات یہ تھی کہ:
’یہ ایک ایسا مرحلہ ہو گا جو بغیر کسی بڑے سماجی ردعمل کے گزر جائے گا۔‘
ڈیمس ہسابس کا موقف اس کے برعکس ہے۔ ان کے مطابق، جب آپ ایسی ذہانت تخلیق کر رہے ہیں جو انسان سے آگے جا سکتی ہے۔ تو صرف ترقی کا سوچنا کافی نہیں، اس کی رسائی، کنٹرول، اور اخلاقی پہلو بھی اہم ہیں۔
ڈیمس ہسابس نے ٹائم میگزین کو بتایا کہ انہیں یہ سب کچھ رات کو سونے نہیں دیتا۔ ان کے بقول: ’یہ ایک طرح کا امکان ہے، ایک شماریاتی تقسیم۔ لیکن یہ آنے والا ہے۔ ہمیں اس کے کنٹرول، اس کی رسائی اور اس کے سماجی اثرات پر ابھی سے سوچنا چاہیے۔‘
اینتھراپک کے سی ای او داریو امودے کا یہ اعتراف کہ وہ نہیں جانتے ان کے ماڈلز کیسے کام کرتے ہیں۔ خود ماہرین کے لیے باعث تشویش ہے۔ اور جب مصنوعی ذہانت کے ماہر رومن یمپلوسکی یہ کہیں کہ: ’99.999999 فیصد امکان ہے کہ اے آئی انسانیت کا خاتمہ کر دے گی،‘ تو سوال تو اٹھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یمپلوسکی کا حل نہایت سادہ مگر غیر حقیقت پسندانہ ہے: ’مصنوعی ذہانت بنانی ہی چھوڑ دو۔‘
یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ٹیکنالوجی کی دنیا اس وقت ایک ریس میں شامل ہے۔ اوپن اے آئی سپر انٹیلیجنس کی طرف بڑھ رہی ہے۔ گوگل نے وی او 2 متعارف کرایا ہے۔ اور مائیکروسافٹ نے ڈیپ مائنڈ کی سمت نگاہیں مرکوز کر دی ہیں۔ اس سب کے دوران عوام کے لیے سب سے ضروری سوال شاید یہ ہونا چاہیے کہ وہ خود کہاں کھڑے ہیں؟
اگر ہم مان بھی لیں کہ اے جی آئی آ رہی ہے، تو کیا ہمارا تعلیمی نظام، ہماری سماجی تربیت، اور ہماری اخلاقی ساخت اس کے لیے تیار ہے؟ اردو اے آئی نے اس موضوع پر ایک دلچسپ بلاگ شائع کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ مصنوعی ذہانت تعلیم کو کس طرف لے جا رہی ہے۔
اے جی آئی ایک تصور ہے، ایک ٹیکنالوجی ہے، اور شاید مستقبل کا سب سے بڑا امتحان بھی۔ ہم یہ تو مانتے ہیں کہ یہ ترقی ہے، لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہر ترقی قیمت بھی مانگتی ہے۔اس تحریر کا مقصد خوف پھیلانا نہیں بلکہ سوال اٹھانا ہے۔ کیا ہم نے ان سوالات پر بات شروع کی ہے؟ کیا ہم نے اپنے بچوں، اپنے ملازمین، اپنے تعلیمی اداروں سے ان موضوعات پر بات کی ہے؟ اگر نہیں، تو شاید ہمیں ڈیمس ہسابس کی نیند کی قربانی کو سنجیدہ لینا چاہیے۔
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اے آئی کیا ہے، تو اردو اے آئی کی ماسٹر کلاس ضرور دیکھیے۔
Hi! I’m Mairaj Roonjha, a Computer Science student, Web developer, Content creator, Urdu AI blogger, and a changemaker from Lasbela, Balochistan. I’m currently studying at Lasbela University of Agriculture, Water and Marine Sciences (LUAWMS), where I focus on web development, artificial intelligence, and using tech for social good.
As the founder and lead of the Urdu AI project, I’m passionate about making artificial intelligence more accessible for Urdu-speaking communities. Through this blog, I aim to break down complex tech concepts into simple, relatable content that empowers people to learn and grow. I also work with the WALI Lab of Innovation to help reduce the digital divide in rural areas.
Shahzad shm shmd
صاحب اپ نے 20 بتایا ہے کہ اے ائی کیا ہے اے ائی کا اگلا سٹیپ کیا انے والا ہے جسے اے این جنرل انٹیلیجنس کہیں گے اور اس کے بعد اے ائی سپر انٹلیجنس ائے گا