آپ جانتے ہیں فے فے لی کون ہیں؟ جو مصنوعی ذہانت کو دیکھنا سکھا گئیں؟
مصنوعی ذہانت کا میدان روز بروز ترقی کرتا جا رہا ہے، مگر آج بھی خواتین کی نمائندگی اس شعبے میں بہت کم ہے۔ ایسے میں جب چین میں پیدا ہونے والی ایک خاتون سائنسدان، فے فے لی، دنیا کے سات ممتاز مرد سائنسدانوں کے ساتھ کھڑی ہو کر ایک بڑا بین الاقوامی اعزاز حاصل کرتی ہیں تو یہ صرف ایک انعام نہیں بلکہ ایک تاریخی سنگِ میل بن جاتا ہے۔ فے فے لی کو جب ‘گاڈمدر آف اے آئی‘ کہا جاتا ہے، تو وہ اس خطاب کو فخر سے قبول کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ مختلف ہونا ان کے لیے باعثِ فخر ہے کیونکہ یہ مختلف ہونا ہی اُن لڑکیوں کے لیے امید کی کرن بن سکتا ہے جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنا مقام بنانا چاہتی ہیں۔
فے فے لی کو 2025 کے کوئن الزبتھ پرائز فار انجینئرنگ کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ انہیں سات دیگر مشہور سائنسدانوں کے ساتھ دیا گیا ہے جنہوں نے مصنوعی ذہانت، بالخصوص مشین لرننگ اور کمپیوٹر وژن کے شعبوں میں انقلابی کردار ادا کیا ہے۔
فے فے لی کی زندگی ایک جدوجہد کی کہانی ہے۔ وہ چین میں پیدا ہوئیں اور اپنی نوعمری میں امریکہ منتقل ہوئیں، جہاں انہوں نے کمپیوٹر سائنس میں تعلیم حاصل کی۔ وہ آج اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں ہیومن سینٹرڈ اے آئی انسٹیٹیوٹ کی شریک ڈائریکٹر ہیں۔ وہ World Labs کی کوفاؤنڈر اور سی ای او بھی ہیں۔ ان کا سب سے نمایاں کارنامہ ImageNet نامی پروجیکٹ ہے جس نے مشینی انداز میں تصویری شناخت کو ممکن بنایا۔ یہی پروجیکٹ آج کے کمپیوٹر وژن کی بنیاد ہے، یعنی یہ کہ کس طرح کمپیوٹرز تصاویر کو “دیکھ” اور سمجھ سکتے ہیں، چیٹ جی پی ٹی کا وژن فیچر اسی ٹیکنالوجی کی عملی مثال ہے۔
ImageNet پروجیکٹ نے مصنوعی ذہانت میں ڈیٹا پر انحصار کرنے والے ماڈلز کے لیے راہ ہموار کی۔ ان کے مطابق، “یہ ڈیٹاسیٹ ان مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کے لیے دروازہ کھولنے جیسا تھا جو ڈیٹا کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔” اس ڈیٹاسیٹ نے مشین لرننگ کی تربیت کے لیے لاکھوں تصاویر مہیا کیں، جن پر آج کی جدید اے آئی ماڈلز کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
جب لوگوں نے فے فے لی کو ‘گاڈمدر آف اے آئی’ کہنا شروع کیا تو ان کا پہلا ردِعمل اسے مسترد کرنا تھا۔ مگر پھر انہوں نے سوچا کہ اگر وہ اس خطاب کو رد کرتی ہیں تو یہ موقع ضائع ہو جائے گا کہ خواتین سائنسدانوں کو بھی اسی طرح پہچانا جائے جیسے مردوں کو گاڈفادر یا فاؤنڈنگ فادر کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، “میں نے سوچا کہ آنے والی نسل کی لڑکیوں کے لیے، اور ان تمام خواتین کے لیے جن کے ساتھ میں کام کرتی ہوں، مجھے یہ لقب قبول کر لینا چاہیے۔”
فے فے لی صرف سائنسی تحقیق میں ہی نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت کے مستقبل کی سمت پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا اگلا بڑا قدم تب آئے گا جب اے آئی اپنے اردگرد کے ماحول سے خود سیکھنے لگے گی، بالکل انسانوں اور جانوروں کی طرح۔ ان کے مطابق، “اگر ہم اے آئی کو یہ قدرتی صلاحیت دے سکیں تو یہ انسانوں کی تخلیقی صلاحیت، روبوٹک لرننگ، ڈیزائن، اور آرکیٹیکچر جیسے شعبوں میں زبردست ترقی کا باعث بنے گی۔”
یہ پہلا موقع تھا کہ کوئن الزبتھ پرائز کے تمام سات انعام یافتگان ایک ہی مقام پر، سینٹ جیمز پیلس میں جمع ہوئے۔ جہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے ماہرین نے ان کی خدمات کو سراہا۔
تاہم ان سات افراد کے خیالات میں اختلاف بھی ہے۔ خاص طور پر مصنوعی ذہانت کے خطرات پر۔ ڈاکٹر جیوفری ہنٹن، جو مشہور ‘گاڈفادر آف اے آئی’ مانے جاتے ہیں، کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر اے آئی کو کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ انسانیت کے لیے ‘انتہائی خطرناک’ ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کے برعکس ڈاکٹر یان لیکن کا کہنا ہے کہ یہ خطرات مبالغہ آمیز ہیں اور میڈیا ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
فے فے لی اس بارے میں اعتدال پسند رائے رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “میں ہمیشہ سائنس پر مبنی اور حقائق پر مشتمل بات چیت کی حامی رہی ہوں۔ ایک ایسا موضوع جو انسانیت پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے، اس پر کھلا اور سائنسی مباحثہ ہونا ضروری ہے۔”
فے فے لی کا یہ بھی کہنا ہے کہ سائنسی اختلافات صحت مند چیز ہیں اور اسی اختلافِ رائے سے نئی تحقیق، سوچ اور پیش رفت جنم لیتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ “میں دونوں انتہاؤں سے گریز کرتی ہوں۔ نہ میں مصنوعی ذہانت کو آسمانی طاقت سمجھتی ہوں اور نہ ہی قیامت کی نشانی۔ ہمیں اس ٹیکنالوجی کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنا اور سمجھانا ہو گا۔”
یہ ایوارڈ، جو ہر سال ایسے انجینئروں کو دیا جاتا ہے جن کی ایجادات نے انسانیت کی بہتری میں اہم کردار ادا کیا ہو، اس سے قبل سر ٹم برنرز لی جیسے شخصیات کو بھی دیا جا چکا ہے جنہوں نے ورلڈ وائیڈ ویب کی بنیاد رکھی۔ فے فے لی کی کہانی نہ صرف ایک کامیاب سائنسدان کی ہے بلکہ ایک ایسے کردار کی بھی جو مصنوعی ذہانت جیسے مردوں کے زیرِ اثر شعبے میں خواتین کے لیے نئی راہیں کھول رہی ہیں۔ ان کی کامیابی ایک مثال ہے کہ اگر عزم، علم اور حوصلہ ہو تو کوئی بھی میدان مرد یا عورت کی شناخت نہیں دیکھتا، صرف صلاحیت دیکھتا ہے۔


No Comments