
مصنوعی ذہانت ہم سے سب کچھ بہتر کرے گی تو پھر کون سی مہارتیں اہم رہیں گی؟
جب ہم مصنوعی ذہانت کے اثرات پر غور کرتے ہیں تو یہ سوال کہ “کون سی نوکریاں ختم ہو جائیں گی اور کون سی نئی پیدا ہوں گی؟” مکمل تصویر پیش نہیں کرتا۔ ہم ایک بہت بڑی انقلابی تبدیلی کے دہانے پر ہیں، جس کے اثرات ابھی مکمل طور پر سمجھنا مشکل ہے۔ ڈاکٹر گیل گلبوا فریڈمین، جو ایک ریاضی دان اور AI ماہر ہیں۔ کو حال ہی میں سپیر اکیڈمک کالج نے “فیکلٹی آف ایڈوانسڈ ٹیکنالوجیز” قائم کرنے کے لیے منتخب کیا ہے تاکہ طلبہ کو اس بدلتی دنیا کے لیے تیار کیا جا سکے۔
مصنوعی ذہانت کی حیرت انگیز ترقی
“آج کے دور میں کمپیوٹر کچھ کاموں میں انسانوں سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ جب کہ کچھ معاملات میں ابھی بھی پیچھے ہیں۔ جن رپورٹس کو میں نے پڑھا ہے۔ ان کے مطابق دنیا بھر کے زیادہ تر آجر ایسے کام AI پر مبنی بوٹس کو دینا پسند کرتے ہیں۔ جو پہلے جونیئر ملازمین کو دیے جاتے تھے۔ یہ ایک بنیادی تبدیلی ہے،” ڈاکٹر گیل گلبوا فریڈمین کہتی ہیں۔
بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ چونکہ AI ابھی تک ہر کام میں مہارت حاصل نہیں کر سکی۔ اس لیے ہم اس سے بہتر ہیں۔ “ہم خود کو یہ کہہ کر تسلی دیتے ہیں کہ ہم بہتر گانے لکھ سکتے ہیں یا کہ چیٹ بوٹس بعض اوقات بے تُکی باتیں کر دیتے ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ نہیں کہ AI آج کیا کر سکتی ہے یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ وہ کتنی تیزی سے سیکھ رہی ہے۔ اور بہتر ہو رہی ہے۔ اگر ہم کسی انسان کو اتنی تیز رفتاری سے سیکھتا دیکھیں۔ تو یہ ہمیں خوفزدہ کر دے گا۔ بالآخر، AI ہم سے ہر چیز میں بہتر ہو جائے گی،” وہ وضاحت کرتی ہیں۔
اعلیٰ تعلیم میں انقلاب: مواقع یا چیلنج؟
ڈاکٹر فریڈمین کا ماننا ہے کہ AI کی وجہ سے اعلیٰ تعلیمی نظام میں ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے، جو کہ چھوٹے تعلیمی اداروں کے لیے ایک موقع بھی ہو سکتا ہے۔
ہمیں طلبہ کو ایک بالکل مختلف طرح کے اوزار فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مستقبل کی مارکیٹ میں جگہ بنا سکیں۔ ایک چھوٹے اور لچکدار کالج کے طور پر، ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم ان کی عملی تربیت پر توجہ دیں،” وہ کہتی ہیں۔
طلبہ کو غیر یقینی مستقبل کے لیے تیار کرنا
جدید ٹیکنالوجی کی مہارتیں آج کل صرف ڈیڑھ سال میں پرانی ہو جاتی ہیں۔ “اگر میرے پاس جادوئی نسخہ بھی ہو کہ کون سی مہارتیں سکھائی جائیں، اور میں اسے عملی تربیت میں بدل دوں، تب بھی وہ 18 ماہ میں پرانی ہو جائے گی۔ اس لیے ہمیں تعلیم کے مواد اور طریقے دونوں کو نئے انداز میں اپنانا ہوگا۔
ان کے مطابق یونیورسٹیوں کو AI سسٹمز کی طرح ارتقا پذیر ہونا ہوگا، مسلسل سیکھنا اور ترقی کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ، طلبہ کو کلاس رومز کے بجائے صنعتوں میں براہِ راست تجربہ حاصل کرنے کے مواقع دینے ہوں گے۔
کیا اعلیٰ تعلیم کا کوئی مستقبل ہے؟
جب کمپنیاں عام کاموں کے لیے AI کو ترجیح دے رہی ہیں، تو کیا اعلیٰ تعلیم کا کوئی کردار باقی رہ جائے گا؟
یونیورسٹیوں کا بنیادی مقصد اب اقدار اور تنقیدی سوچ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ہونا چاہیے۔ سچی ذہانت انسان کے سیکھنے کے عمل میں پوشیدہ ہوتی ہے، جو ایک فکری ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ تعلیم وہ واحد راستہ ہے جہاں سے حقیقی سوچنے، سمجھنے اور ہمدردی جیسے جذباتی پہلوؤں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
مستقبل کی نوکریاں اور مصنوعی ذہانت
AI کی وجہ سے ملازمتوں پر اثرات کے بارے میں، وہ کہتی ہیں، “تاریخ میں ہر بڑی ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ملازمتیں ختم ہونے کا خوف پایا جاتا تھا۔ لیکن ہمیشہ نئی نوکریاں پیدا بھی ہوتی ہیں۔ میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ روبوٹس ہمارے ساتھ کام کریں گے، ہماری جگہ نہیں لیں گے۔ ہمیں انہیں بہتر بنانے، تربیت دینے اور استعمال کرنے کا فن سیکھنا ہوگا۔”
AI محض نوکریاں ختم نہیں کر رہا۔ بلکہ یہ ایک نئی دنیا تخلیق کر رہا ہے جہاں انسان اور مشینیں ساتھ مل کر کام کریں گی۔ “اگر پہلے AI کو ایک چوہے جتنی ذہانت حاصل کرنی تھی۔ پھر بندر، پھر انسان، اور اب آئنسٹائن جتنا ذہین بننے کا ہدف تھا۔ تو جب یہ اس سے بھی آگے نکل جائے گا، تب کیا ہوگا؟ ہم ابھی تک اس کی حدوں کا اندازہ نہیں لگا سکے۔
مصنوعی ذہانت کا دور: کیا ہم واقعی تیار ہیں؟
AI کی اس تیز رفتار ترقی سے نمٹنے کے لیے حکومت، صنعت اور تعلیمی اداروں کے درمیان تعاون ضروری ہے۔ “ہمیں ایک قومی AI پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہوں۔ اگر ہم صرف کمپیوٹر سائنسدانوں سے پوچھیں کہ تعلیمی نظام کو کیسے بدلا جائے۔ تو ہمیں ایک نامکمل جواب ملے گا۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کو انسانی علوم کے ساتھ ملایا جائے اور اسے ایک اسٹارٹ اپ کی طرح چلایا جائے، جہاں مسلسل تبدیلیاں کی جاتی ہیں۔”
اسرائیل اورمصنوعی ذہانت انقلاب
اسرائیل اس وقت AI میں سب سے آگے نہیں ہے۔ لیکن ڈاکٹر فریڈمین کا ماننا ہے کہ ملک کو اس انقلاب کو گلے لگانے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ “ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں ماہرین دوسروں کو سکھائیں کہ اس بدلتے ماحول میں کیسے ڈھلنا ہے۔ کوئی بھی ادارہ تنہا کام نہیں کر سکتا، ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔
مصنوعی ذہانت اور انسان: ہم آہنگی کی نئی دنیا
مستقبل میں AI کا کردار محض مشینوں کے ذریعے کام مکمل کروانے تک محدود نہیں ہوگا۔ بلکہ یہ انسانوں کے ساتھ مل کر ایک نئی دنیا تشکیل دے گا۔ سب سے اہم مہارت کیا ہوگی؟ “جستجو”۔ جو شخص نئی چیزوں کو سیکھنے اور اپنانے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔ وہی کامیاب ہوگا۔ AI اور انسانوں کا ایک ساتھ کام کرنا مستقبل کی حقیقت ہے، اور ہمیں ابھی سے اس کے لیے تیار ہونا ہوگا۔
No Comments