کیا ڈگری اب کافی نہیں؟ سندر پچائی کا مشورہ اور اے آئی کے دور میں کامیابی کا راز
مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی اب ایک نظریہ نہیں بلکہ ایک حقیقت بن چکی ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری زندگی کے مختلف شعبوں میں گہرے اثرات چھوڑ رہی ہے۔ گوگل کے سی ای او سندر پچائی کا حالیہ بیان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دنیا ایک بڑی تبدیلی کی دہلیز پر کھڑی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اے آئی نہ صرف چھوٹی یا ابتدائی سطح کی ملازمتوں کو متاثر کرے گی بلکہ ہر وہ پیشہ جو آج ہم محفوظ سمجھتے ہیں، مستقبل میں خودکار نظاموں کی زد میں آ سکتا ہے۔ ان کے مطابق، “ہمیں سماجی سطح پر اس تبدیلی کے لیے تیار رہنا ہوگا اور ہر فرد کو اپنی مہارتوں کو نئے دور کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔”
سندر پچائی کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت انسانیت کی تاریخ کی سب سے بڑی اور گہری ٹیکنالوجی ہے۔ بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ “یہ ٹیکنالوجی غیر معمولی فائدے پہنچا سکتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سماجی سطح پر اس کے ممکنہ نقصانات اور رکاوٹوں پر بھی غور کرنا ہوگا۔” پچائی کے مطابق نہ صرف انٹری لیول کی جابز جیسے کسٹمر سروس، ڈیٹا انٹری، اور جونیئر اینالسز، بلکہ اعلیٰ سطح کی نوکریاں بھی اے آئی کے ذریعے متاثر ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی اپنی سی ای او کی نوکری بھی ان کاموں میں شامل ہے جو مستقبل میں اے آئی کے ذریعے انجام دیے جا سکتے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں گوگل نے اپنا جدید ترین ماڈل Gemini 3 لانچ کیا، جسے ٹیکنالوجی کے ماہرین اور سرمایہ کاروں نے موجودہ وقت کا سب سے موثر اور طاقتور چیٹ بوٹ قرار دیا۔ یہ ماڈل Gemini 2.5 کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے اور اس میں وہ صلاحیت موجود ہے جو صارفین اور اداروں دونوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ اس جدت کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ اے آئی نہ صرف ترقی کی علامت ہے بلکہ یہ روزگار کے پرانے نظام کو بھی مکمل طور پر تبدیل کر رہا ہے۔
امریکہ میں ایک حالیہ تحقیق کے مطابق، جب سے ChatGPT جیسی ٹیکنالوجی مارکیٹ میں آئی ہے، ملازمتوں کے اشتہارات میں تقریباً 32 فیصد کمی آئی ہے۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ ادارے اے آئی کو استعمال کرتے ہوئے اپنی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر رہے ہیں اور اسی بنا پر انسانی محنت کی طلب میں کمی آ رہی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر Gen Z نوجوانوں پر پڑا ہے، جو ابھی تعلیم مکمل کر کے عملی زندگی میں قدم رکھ رہے ہیں۔ کئی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے نوجوان ملازمین کی بھرتی آدھی کر دی ہے اور کمپیوٹر پروگرامنگ جیسے کبھی مقبول شعبے آج زوال کا شکار ہیں۔
ان حالات میں نوجوان سوچنے پر مجبور ہیں کہ کیا ان کی تعلیمی سرمایہ کاری واقعی فائدہ مند ثابت ہوگی؟ بہت سے طلبا اب اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا انھیں مہنگے کالجوں میں پڑھائی جاری رکھنی چاہیے یا ایسی فنی تربیت حاصل کرنی چاہیے جو اے آئی کے اثر سے محفوظ ہو، جیسے بلو کالر جابز یا ہنر پر مبنی کام۔ تاہم، سندر پچائی کا اس بارے میں مؤقف کافی واضح ہے۔ ان کے مطابق، “میں نہیں سمجھتا کہ کسی کو بھی یہ سوچ کر اپنا تعلیمی راستہ بدلنا چاہیے کہ اے آئی کیا کرے گا۔ میرے خیال میں مختلف شعبوں کی اہمیت برقرار رہے گی، بس ہمیں سیکھنا ہوگا کہ اے آئی کو اپنے کام کا حصہ کیسے بنائیں۔”
یہ بات قابلِ غور ہے کہ اے آئی کے خلاف صرف خوف یا بے یقینی پیدا کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ پچائی نے زور دیا کہ اس دور میں وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو سیکھنے کا عمل جاری رکھیں گے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی شعبے سے ہو۔ ڈاکٹر، استاد، وکیل یا انجینئرسبھی کو اے آئی کی بنیادی سمجھ ہونی چاہیے تاکہ وہ اس ٹیکنالوجی کو اپنے کام میں شامل کر کے بہتر نتائج حاصل کر سکیں۔
پچائی نے حکومتوں، تعلیمی اداروں اور سوسائٹی سے بھی اپیل کی کہ وہ اس موضوع پر سنجیدگی سے گفتگو شروع کریں۔ انھوں نے کہا کہ “ہمیں سوچنا ہوگا کہ اے آئی کی آمد کے بعد معاشرتی نظام کیسے بدلے گا، تعلیم کا طریقہ کار کیسے بدلے گا، اور نوجوانوں کو کیسے تیار کیا جائے تاکہ وہ مستقبل کے تقاضوں پر پورا اتر سکیں۔”
ان کی یہ بات درست ہے کہ جب اے آئی انسانوں کی جگہ لے رہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان غیر ضروری ہو گئے ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو اپنی مہارتوں کو بہتر بنانا ہوگا، نئے ہنر سیکھنے ہوں گے، اور ٹیکنالوجی کو ایک مددگار ٹول کے طور پر اپنانا ہوگا، نہ کہ ایک متبادل کے طور پر۔
مثال کے طور پر، مستقبل میں وہ ملازمتیں جن میں انسانی جذبات، تخلیقی صلاحیت یا ذاتی رابطے کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے نفسیاتی مشورہ، سوشل ورک، یا کریٹو ڈیزائن، وہ اے آئی سے متاثر کم ہوں گی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان شعبوں کے افراد اے آئی سے بے خبر رہ سکتے ہیں۔ اے آئی ان کے کام کو بھی بہتر بنانے کے لیے ایک آلہ بن سکتا ہے۔
اردو زبان میں اے آئی سیکھنے کے مواقع بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ UrduAI.org جیسے پلیٹ فارمز عام لوگوں کو اردو میں اے آئی سے متعلق کورسز اور مواد فراہم کر رہے ہیں تاکہ زبان کی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ ان پلیٹ فارمز کے ذریعے طلبا، اساتذہ، اور عام افراد آسانی سے اے آئی کی سمجھ حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی مہارتوں میں اضافہ کر سکتے ہیں۔
پچائی نے یہ بھی کہا کہ اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنی ورک فورس کو اپ سکل کرنے کے پروگرامز فراہم کریں تاکہ وہ اے آئی کے ساتھ کام کرنا سیکھیں نہ کہ اس سے مقابلہ کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ اے آئی کو سیکھنے میں وقت صرف کریں گے، وہی مستقبل میں کامیاب ہوں گے۔ جو اس تبدیلی سے آنکھیں چرائیں گے، وہ جلد ہی غیر متعلق ہو جائیں گے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اے آئی کے آنے سے پیداواریت بڑھے گی، لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چند لوگ بہت زیادہ فائدہ اٹھائیں اور باقی پیچھے رہ جائیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومتیں پالیسیاں ترتیب دیں، روزگار کے متبادل ذرائع فراہم کریں، اور ایک ایسا معاشرتی نظام بنائیں جہاں سب کو برابری کے مواقع میسر آئیں۔
آخر میں، سندر پچائی کا پیغام سادہ لیکن بہت گہرا ہے: تبدیلی ناگزیر ہے، لیکن یہ تبدیلی مثبت بھی ہو سکتی ہے اگر ہم اسے سمجھداری سے اپنائیں۔ وہ افراد اور ادارے جو اے آئی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا فن سیکھ لیں گے، وہ اس نئی دنیا میں کامیاب ہوں گے۔ اور جو اس سے منہ موڑیں گے، وہ پیچھے رہ جائیں گے۔ یہ وقت ہے سیکھنے، اپنانے اور آگے بڑھنے کا۔ اے آئی دشمن نہیں بلکہ ایک طاقتور ہتھیار ہے بس اسے استعمال کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔


No Comments