کیا وقت آ گیا ہے کہ ہم مصنوعی ذہانت کو ایک معمول کی ٹیکنالوجی سمجھ لیں؟
مصنوعی ذہانت: خوف کی علامت یا روزمرہ حقیقت؟
دنیا میں مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال اب ہر طرف دیکھا جا سکتا ہے۔ صنعت سے تعلیم تک اور علاج سے فن تک۔ لیکن اس کے باوجود، بہت سے لوگ اب بھی اسے ایک “غیر معمولی” یا “خطرناک” ٹیکنالوجی سمجھتے ہیں۔ سابق گوگل سی ای او نے تو یہاں تک تجویز دی کہ اے آئی کو یورینیم کی طرح کنٹرول کیا جائے، جبکہ کچھ کمپنیاں جیسے Anthropic AI ماڈلز کے “حقوق” اور “فلاح” پر تحقیق کر رہی ہیں۔
اگر آپ مصنوعی ذہانت کی بنیادی سمجھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ اردو اے آئی ماسٹر کلاس ایک بہترین نقطہ آغاز ہو سکتا ہے۔
دو انتہاؤں میں تقسیم سوچ
ایک طرف اوپن اے آئی کے سیم آلٹمین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اے آئی کی تبدیلی صنعتی انقلاب جیسی نہیں بلکہ نشاة ثانیہ کی مانند ہوگی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر لوگ فکرمند ہیں کہ آیا AI کا فائدہ سب تک پہنچے گا یا نہیں۔ کچھ افراد اے آئی سے مکمل طور پر آزاد معاشروں کی بات کر رہے ہیں۔ ایسے جدید دور کے “امینائٹ” جو ٹیکنالوجی کو دانستہ محدود رکھیں۔
اے آئی کو عام سمجھیں پرنسٹن کی تحقیق
پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر اروِند نارائنن اور ریسرچر سیایش کپور نے حال ہی میں ایک 40 صفحات پر مشتمل تحقیق شائع کی ہے۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں مصنوعی ذہانت کو ایک عام ٹیکنالوجی کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ بالکل اسی طرح جیسے بجلی یا انٹرنیٹ۔
ان کے مطابق “سُپر انٹیلیجنس” جیسے تصورات صرف قیاس آرائی ہیں اور ان سے خوف پیدا ہوتا ہے، حقیقت نہیں۔
رفتار بمقابلہ اطلاق
کپور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اے آئی کی لیبارٹریوں میں ہونے والی ترقی اور عام زندگی میں اس کا اطلاق ہمیشہ ایک ساتھ نہیں ہوتا۔ AI کی حقیقی تبدیلی ٹیکنالوجی کے عمومی ارتقاء جیسی ہو گی۔ رفتہ رفتہ، نہ کہ ایک دھماکے کے ساتھ۔
اے آئی سب کچھ نہیں کرے گی مگر سب بدل دے گی
مصنفین کے مطابق، اے آئی ہر کام خودکار نہیں بنائے گی۔ بلکہ نئی اقسام کی نوکریاں بھی لائے گی جیسا کہ ایسے افراد جو AI کی نگرانی، تصدیق اور درستگی کا کام کریں گے۔ اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ایسے میں کن مہارتوں کی اہمیت باقی رہے گی، تو یہ تحریر ضرور پڑھیں۔
اے آئی اور سرمایہ داری کا نیا چہرہ
اے آئی سرمایہ داری کو سپرچارج کرتی ہے۔ نارائنن کہتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا اطلاق سماجی برابری، صحافت اور جمہوریت پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
دفاعی میدان میں اے آئی کا خاموش قدم
اگرچہ اس تحقیق میں اے آئی کے عسکری استعمال پر تفصیل نہیں دی گئی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ جنگی میدان میں AI کے استعمال میں تیزی آ رہی ہے۔ اور فیصلہ سازی کا بوجھ خودکار نظاموں پر منتقل ہو رہا ہے۔
امریکہ بمقابلہ چین: اے آئی کی دوڑ کا مبالغہ؟
امریکی حکومت کی جانب سے اے آئی کو قومی سلامتی سے جوڑا جا رہا ہے۔ مگر نارائنن اور کپور اسے “بے جا شور” کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اے آئی بنانے کا علم اتنی تیزی سے پھیل چکا ہے کہ اب اسے خفیہ رکھنا ممکن نہیں۔
پالیسی کی راہ: خوف سے نہیں، فہم سے
تحقیق نگار کہتے ہیں کہ ہمیں سائنس فکشن پر مبنی خوف پر نہیں بلکہ حقیقی پالیسی سازی پر توجہ دینی چاہیے:
- جمہوری ادارے مضبوط کیے جائیں
- حکومت میں تکنیکی مہارت بڑھے
- عوام میں اے آئی کی تعلیم عام ہو
- اور ایسے افراد کو فروغ دیا جائے جو اے آئی کو مثبت انداز میں اپنائیں
سادگی میں ہی بقا ہے
مصنوعی ذہانت کو معمول کی ٹیکنالوجی سمجھنے کا مطلب ہے کہ ہم افسانوی خوف کے بجائے عقلی اقدامات کریں۔ یہی وہ انداز فکر ہے جو ہمیں مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے قابل بنائے گا۔
یہ بلاگThe Technology Review: Is AI Normalمیں شائع شدہ ایک مضمون پر مبنی ہے۔