
جونی اور سیم آلٹمن کی گفتگو:کیا ہم اے آئی کے ساتھ بہتر انسان بن سکتے ہیں؟
یہ تحریر سیم آلٹمین اور جونی کے درمیان ہونے والی ایک خوبصورت اور بصیرت افروز گفتگو پر مبنی ہے۔ جو کہ نہ صرف مصنوعی ذہانت اور ڈیزائن پر مرکوز ہے، بلکہ اس میں انسانی فطرت، تجسس، حساسیت، اور مقصدیت جیسے عناصر بھی گہرائی سے جھلکتے ہیں۔ دونوں شخصیات نہایت مختلف پس منظر سے تعلق رکھتی ہیں سیم آلٹمین بطور بانی و سی ای او اوپن اے آئی کے، اور جونی آئیو بطور سابق چیف ڈیزائنر Apple کے لیکن اس گفتگو میں ان کے خیالات حیران کن حد تک ہم آہنگ اور مربوط محسوس ہوتے ہیں۔
جونی نے گفتگو کا آغاز اپنی ذاتی کہانی سے کیا کہ وہ ایپل چھوڑنے کے بعد چھ سال تک ایک تخلیقی ٹیم تشکیل دینے میں مصروف رہے۔ مگر اس کا اصل مقصد انھیں واضح نہیں تھا۔ لیکن جب تین سال قبل چیٹ جی پی ٹی منظرِ عام پر آیا، تو ان کے اندر وہ واضح احساس بیدار ہوا کہ اُن کی تخلیقی کوششوں کا اصل مصرف کیا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے سیم آلٹمین سے رابطہ کیا اور تب سے یہ تخلیقی اشتراک ایک مسلسل سفر بن گیا۔
سیم نے یہ بات بہت محبت سے شیئر کی کہ جب بھی وہ اور جونی کسی نئی ٹیکنالوجی یا مسئلے پر بات کرتے ہیں۔ جونی اور ان کی ٹیم کچھ دنوں کے اندر کوئی ایسا نیا حل لے آتے ہیں جو سادہ، خوبصورت، اور بظاہر ہمیشہ سے موجود لگتا ہے۔ لیکن دراصل وہ بالکل نیا اور انوکھا خیال ہوتا ہے۔ سیم کے مطابق یہ وہ “جادو” ہے جو جونی کی سوچ، ان کی ٹیم کے تجربے، اور ان کے خلوص پر مبنی ہے۔
جونی کے مطابق اس طرح کے خیالات کی جڑ صرف تخلیقی عمل یا تجربہ نہیں بلکہ ایک گہری انسانی ہمدردی اور مقصدیت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ کی نیت انسانوں کے لیے آسانی اور بھلائی پیدا کرنا نہ ہو تو کوئی بھی ایجاد آخرکار منفی اثرات لاتی ہے۔ وہ انسانی تاریخ کا گہرا مطالعہ کرتے ہیں کیونکہ اُن کے مطابق “ہم نے ابھی ذہین ہونا شروع نہیں کیا، ہم پہلے بھی بہت ذہین تھے” اس جملے سے ان کی تاریخی بصیرت اور انسانی تجربے کے احترام کا اندازہ ہوتا ہے۔
جب بات آئی اس عمل پر جو کسی دھندلے خیال کو ایک واضح اور قابل استعمال پروڈکٹ میں بدل دیتا ہے۔ تو جونی نے بتایا کہ یہ عمل بے حد نازک، دھیمی اور جذباتی ہوتا ہے۔ تخلیقی ٹیم کا باہمی اعتماد، سالوں کی بایوگرافی (ایک ساتھ کام کا تجربہ)، اور جذباتی طور پر محفوظ ماحول ہی وہ عوامل ہیں جو کسی خام، ناپختہ خیال کو ایک مکمل شکل میں ڈھالنے میں مدد دیتے ہیں۔
سیم نے گفتگو میں craft یا دستکاری کے بارے میں سوال کیا کہ آخر اتنی باریکیوں، مثلاً ملی میٹر کے دسوں حصے کے فرق، پر اتنی گہری توجہ کیوں دی جاتی ہے؟ جونی کا جواب نہایت خوبصورت اور فلسفیانہ تھا: وہ کہتے ہیں کہ جو شخص اُس وقت بھی خیال رکھے جب کوئی نہیں دیکھ رہا، وہی اصل craftsman یا فنکار ہے۔ ان کے مطابق “care” اور “craft” ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔ اور انسان اُس چیز میں فرق محسوس کرتا ہے جس میں خلوص اور باریکی سے کام کیا گیا ہو، اور جس میں صرف وقت اور پیسے کی پرواہ کی گئی ہو۔
یہ گفتگو صرف ماضی یا حال کی تعریف تک محدود نہیں تھی بلکہ مستقبل کی جھلک بھی پیش کرتی ہے۔ دونوں نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ اسمارٹ فونز اور کمپیوٹرز جتنے بھی اچھے ہوں، وہ اب نئی ٹیکنالوجی کے لیے ناکافی ہو گئے ہیں۔ جونی کے مطابق یہ مان لینا کہ دہائیوں پرانے ڈیوائسز ہی مستقبل کے لیے کافی ہوں گے۔ ایک “absurd assumption” ہے۔ نئی صلاحیتیں، جیسے اے آئی، کو نئے رویے، نئے تجربے، اور نئے انٹرفیسز درکار ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیسے جانیں گے کہ آپ نے درست ڈیوائس ڈیزائن کر لی ہے۔ تو جونی نے کہا کہ جب کوئی چیز “بالکل صحیح” محسوس ہو، جب وہ سادہ، قدرتی اور “ظاہر” لگے۔ تب وہ کامیاب ہو گی۔ اس میں کوئی نمود و نمائش کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ خود اپنے اندر اتنی مکمل ہو کہ یوں لگے جیسے ہمیشہ سے اسے ایسے ہی ہونا چاہیے تھا۔
گفتگو میں ایک دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ جونی نے ٹیکنالوجی میں “humor” یعنی مزاح کی کمی پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق اگر ہم اپنے ڈیزائنز اور انٹرفیسز میں “مسکراہٹ” اور “خوشی” کا عنصر شامل نہ کر پائیں تو ہم ایک بڑی انسانی کمی محسوس کریں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مستقبل کی ٹیکنالوجی انسانی رویے، جذبات، اور خوشی کو مدِنظر رکھے۔ سیم نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ جونی کے ساتھ کام کرتے ہوئے سنجیدہ ترین مسائل میں بھی ایک خوشگوار پہلو شامل ہو جاتا ہے جو سارے تجربے کو زیادہ قابلِ برداشت اور معنی خیز بنا دیتا ہے۔
اس مکالمے کا ایک اہم نکتہ یہ تھا کہ دونوں نے تسلیم کیا کہ ہم سب اس تیز رفتار تبدیلی کے دور میں ناتجربہ کار ہیں۔ تجربہ رکھنے والے افراد بھی اب سیکھنے کی اُس ہی سطح پر کھڑے ہیں جہاں نوآموز کھڑے ہیں۔ جونی نے کہا کہ اگر کوئی دعویٰ کرے کہ وہ اس وقت اے آئی اور نئے یوزر انٹرفیسز کا ماہر ہے تو وہ مذاق کر رہا ہے۔ کیونکہ یہ وقت سب کے لیے “Level Playing Field” ہے۔
ان کے مطابق اس وقت کامیاب وہی ہوگا جو تجسس رکھتا ہو، جو سوال کرتا ہو، اور جو ہر روز خود سے یہ پوچھے کہ میری پرانی سوچ اب بھی کارآمد ہے یا رکاوٹ بن رہی ہے؟ انہوں نے dogma کو تخلیق کے لیے زہر قرار دیا یعنی کوئی بھی غیر لچکدار سوچ جو صرف روایت کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہو، وہ اس دور میں غیر متعلق ہو چکی ہے۔
جب سیم نے کوڈنگ اور اے آئی کے تعلق کی بات کی تو جونی نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اے آئی ڈیزائن کے عمل میں بھی ایک مؤثر کردار ادا کرے، لیکن فی الحال وہ ٹیم اتنی مصروف ہے کہ نئے ٹولز سیکھنے کا وقت ہی نہیں مل رہا۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک سچے ڈیزائنر کا سب سے بڑا مسئلہ خود اپنے خیالات کا بوجھ ہوتا ہے۔ جسے سمیٹنا، سلیقے سے ترتیب دینا، اور پھر درست سمت میں تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
گفتگو کے اختتام پر جب جونی سے پوچھا گیا کہ وہ اے آئی کے حوالے سے سب سے زیادہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تو اُن کا جواب نہایت سادہ اور پُراثر تھا: وہ چاہتے ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی ہمیں زیادہ پر سکون، زیادہ خوش، اور ایک دوسرے سے زیادہ جُڑا ہوا بنائے۔ productivity اپنی جگہ، لیکن اصل مقصد “well-being” ہونا چاہیے ایسی زندگی جو صرف زیادہ کام پر نہیں بلکہ بہتر احساسات پر مبنی ہو۔
یہ گفتگو صرف مستقبل کی ٹیکنالوجی کے بارے میں نہیں تھی، بلکہ یہ اس بات کا اظہار تھی کہ انسان کیسے اپنی ذات سے جڑ کر ایک بہتر دنیا تخلیق کر سکتا ہے جہاں اے آئی صرف ایک آلہ نہ ہو بلکہ ایک قابلِ اعتبار ساتھی ہو، جو ہمیں بے چینی سے سکون، اور تنہائی سے تعلق کی طرف لے جائے۔
No Comments