
مصنوعی ذہانت کا مستقبل: سیم آلٹمین کی نظر میں دی جینٹل سنگولیرٹی
دی جینٹل سنگولیرٹی کیا ہے؟
ایک وقت تھا جب مصنوعی ذہانت (AI) کو صرف فلموں، ناولوں یا سائنس فکشن کا تصور سمجھا جاتا تھا۔ لیکن آج یہ حقیقت کے اتنے قریب آ چکی ہے کہ دنیا کی سیاسی، معاشی اور سائنسی سمتیں بدلنے لگی ہیں۔اوپن اے آئی (OpenAI) کے سی ای او سیم آلٹمین کے مطابق، ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جسے وہ جینٹل سنگولیرٹی یعنی نرم سنگولیرٹی کہتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اور مشین کے درمیان ذہانت کا فاصلہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ اور یہ عمل نہایت خاموشی اور نرمی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بغیر کسی شور شرابے یا انقلاب کے۔
سیم آلٹمین کا ماننا ہے کہ ماضی میں جو کام ایک دہائی میں مکمل ہوتا تھا۔ آج وہ شاید ایک سال یا ایک مہینے میں ممکن ہو چکا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا:
“ہم اب اس مرحلے پر ہیں جہاں مصنوعی ذہانت انسانوں سے زیادہ سیکھنے، سوچنے اور عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔”
یہی وہ لمحہ ہے جسے وہ “سنگولیرٹی” کہتے ہیں۔ یعنی وہ موڑ جہاں انسانی ذہانت اور مشینی ذہانت کا گراف ایک دوسرے سے ٹکرا جاتا ہے۔ لیکن سیم آلٹمین کے مطابق، یہ تصادم نہیں بلکہ ایک نرمی سے جڑنے والا عمل ہے۔
ذہانت کی نئی شکل
آج کا AI، انسانوں سے کئی معاملات میں زیادہ ذہین ہو چکا ہے۔ ChatGPT جیسے ماڈلز نہ صرف ہماری پیداواری صلاحیت بڑھا رہے ہیں بلکہ تحقیق، سائنس اور روزمرہ زندگی کے فیصلوں میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ سیم آلٹمین کے مطابق: “ہم نے سب سے مشکل حصہ عبور کر لیا ہے، اب جو راستہ بچا ہے وہ تیز اور شفاف ہے۔”
ان کا یہ بیان اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ آنے والے برسوں میں ذہانت ایک ایسی سہولت بن جائے گی جو بجلی جتنی سستی اور عام ہو گی۔
ذہانت، توانائی اور خودکار نظام
2030 کی دہائی میں دو چیزیں سب سے اہم ہوں گی:
-
ذہانت
-
توانائی
یہ دونوں انسانیت کی ترقی کے لیے بنیادی رکاوٹیں تھیں۔ جو اب تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔ روبوٹس جو خود روبوٹس بنا سکیں۔ ڈیٹا سینٹرز جو خود کو بڑھا سکیں۔ یہ سب اس نئے دور کا حصہ ہوں گے۔
زندگی میں معمولی اور بنیادی تبدیلیاں
آنے والے برسوں میں انسان اب بھی محبت کرے گا۔ کھیل کھیلے گا اور جھیل میں تیرے گا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ خلاء میں آبادیاں بسانے اور نئی ادویات دریافت کرنے کے قابل بھی ہوگا۔
اس تمام تر تبدیلی میں ذہانت بنیادی کردار ادا کرے گی۔ آج سائنسدان کہہ رہے ہیں کہ وہ پہلے سے دو یا تین گنا زیادہ موثر ہو چکے ہیں۔ صرف اس لیے کہ AI نے تحقیق کو تیز کر دیا ہے۔
کیا خطرات موجود ہیں؟
جہاں فائدے ہیں وہیں خدشات بھی ہیں۔ سیم آلٹمین اعتراف کرتے ہیں کہ اگر ہم نے AI کو صحیح طریقے سے کنٹرول نہ کیا۔ تو اس کے منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ سوشل میڈیا الگورتھمز کی غلط رہنمائی۔
“ہمیں ایسا نظام چاہیے جو طویل مدتی انسانی مفاد کو پہچان سکے، نہ کہ صرف فوری لذت کو۔”
وسیع رسائی، سستی ذہانت
سیم آلٹمین کا خواب ہے کہ سپر ذہانت صرف کمپنیوں یا حکومتوں تک محدود نہ ہو بلکہ ہر انسان کو دستیاب ہو۔ اوپن اے آئی اسی وژن پر کام کر رہا ہے کہ ہر فرد کو ذہانت تک رسائی دی جائے۔
نرمی سے، تیزی سے، خاموشی سے
سیم آلٹمین کا وژن نہ صرف ایک ٹیکنالوجیکل انقلاب ہے بلکہ ایک معاشرتی اور انسانی نکتہ نظر سے بھی ایک تبدیلی کی پیش گوئی ہے۔ ہم ایک ایسے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ذہانت کوئی قیمتی چیز نہیں بلکہ ایک عام سہولت ہو گی۔
No Comments