
ایلون مسک اور اوپن اے آئی: دو راستے، ایک سوال
السلام علیکم پیارے دوستو! امید ہے سب خیریت سے ہوں گے۔ تو چلیں آج بات کرتے ہیں ایک ایسی ٹیکنالوجی کی، جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جی ہاں، میں بات کر رہا ہوں اوپن اے آئی کی۔ کبھی آپ نے سوچا ہے؟ یہ جو چیٹ جی پی ٹی آپ کے سوالوں کے جواب دیتا ہے، شاعری کرتا ہے، تصویریں بناتا ہے، یہاں تک کہ کوڈنگ بھی کر دیتا ہے۔ یہ سب شروع کہاں سے ہوا؟ اور اس کے پیچھے کون لوگ تھے؟ اور سب سے بڑھ کر ایلون مسک کا اس میں کیا کردار تھا؟ وہی ایلون مسک جو کبھی راکٹ خلا میں بھیجتے ہیں، کبھی برقی گاڑیاں بناتے ہیں۔
تو جناب! آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ایلون مسک شروع میں اوپن اے آئی کے بانیوں میں شامل تھے۔ انہوں نے صرف پیسے ہی نہیں لگائے، بلکہ ایک خواب بھی پیش کیا کہ یہ ٹیکنالوجی سب کے لیے ہونی چاہیے، چند بڑی کمپنیوں کی جاگیر نہ بنے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ: وہ خواب کہاں گیا؟ کیا واقعی سب کے لیے تھا؟ یا پھر وقت کے ساتھ کچھ بدل گیا؟
دوستو! یہ بلاگ صرف معلومات کے لیے نہیں، بلکہ ایک دلچسپ کہانی ہے اصولوں اور طاقت کے بیچ کی کشمکش کی۔ یہ کہانی ہے ایلون مسک کے اس نظریے کی، جو پہلے تو سب کا تھا، لیکن بعد میں شاید صرف کچھ خاص لوگوں کا رہ گیا۔ تو تیار ہو جائیں! چائے یا کافی کا کپ پکڑ لیں، اور میرے ساتھ نکلیں اس سفر پر جو نہ صرف ماضی کی جھلک دکھائے گا، بلکہ ہمیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کرے گا کہ مستقبل کی شکل کیسی ہو گی؟ چلیں جی، شروع کرتے ہیں!
اوپن اے آئی کا آغاز یہ سب کیسے شروع ہوا؟ آئیے چلتے ہیں 2015 میں
تو بات کچھ یوں ہے دوستو، کہ دسمبر 2015 میں کچھ بڑے دماغوں نے سر جوڑ کر ایک زبردست آئیڈیا سوچا۔ انہوں نے کہا: “یار! یہ جو مصنوعی ذہانت (یعنی اے آئی) ہے نا، یہ تو مستقبل کی بہت بڑی طاقت بننے والی ہے۔ لیکن اگر یہ صرف بڑی بڑی کمپنیوں کے ہاتھ لگ گئی، تو عام انسانوں کا کیا ہوگا؟” اب یہ صرف سوچنے کی بات نہیں تھی، بلکہ انہوں نے سچ میں اس پر قدم اٹھایا۔ اور یوں وجود میں آیا اوپن اے آئی۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے، یہ قدم اٹھانے والے کون لوگ تھے؟ تو سنیں! اس ٹیم میں شامل تھے کچھ بڑے نام، جیسے:
-
سیم آلٹمن
-
ایلون مسک
-
گریگ بروک مین
-
آئیلیا سٹسکیور
اور بھی کئی قابل لوگ۔ یہ سب لوگ ایک ہی بات پر متفق تھے: “ہم ایک ایسا ادارہ بنائیں گے جو کسی کمپنی یا حکومت کے ماتحت نہ ہو، بلکہ صرف انسانیت کے فائدے کے لیے ہو۔
اب مزے کی بات سنیں ایلون مسک اور دوسرے ڈونرز نے تقریباً 1 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا! اور وہ بھی ایسے پروجیکٹ کے لیے جس میں انہیں کوئی منافع نہیں ملنا تھا۔ کیوں؟ کیونکہ وہ واقعی چاہتے تھے کہ یہ ٹیکنالوجی سب کے لیے ہو، نہ کہ صرف چند طاقتور لوگوں کے لیے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ: “ہم اپنی ساری تحقیق اوپن سورس رکھیں گے، سب کے ساتھ شیئر کریں گے، اور کوئی پیٹنٹ چھپائیں گے نہیں۔
واہ! کیا وژن تھا! ایسا لگا جیسے واقعی کوئی انقلاب آنے والا ہے۔ اور ہاں، ایلون مسک اور سیم آلٹمن کو ‘شریک چیئر’ بنایا گیا یعنی دونوں اس مشن کے لیڈر تھے۔ تو جی، شروعات تو بڑی زبردست ہوئی۔ سب کچھ شفاف، سب کے فائدے کے لیے، بغیر کسی لالچ کے..
اوپن سورس وژن
دوستو! اوپن اے آئی کی سب سے خاص بات کیا تھی؟ یہ کہ انہوں نے شروع میں ہی ایک زبردست اعلان کر دیا تھا۔ “ہم جو بھی تحقیق کریں گے، وہ سب کے لیے ہوگی۔ چھپائیں گے کچھ نہیں!” یعنی نہ کوئی خفیہ پیٹنٹ، نہ کوئی بند کمرے کی میٹنگ۔ جو بھی نئی ٹیکنالوجی بنے گی، وہ دنیا کے سامنے ہو گی۔ چاہے آپ ایک طالب علم ہوں، کوئی محقق، یا پھر کسی چھوٹے ادارے سے تعلق رکھتے ہوں۔ آپ اس علم کو استعمال کر سکتے تھے، بغیر کسی اجازت یا فیس کے۔
یہی تو تھا اصل وژن: “مصنوعی ذہانت صرف چند کمپنیوں کے پاس نہ ہو، بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہو۔” اوپن اے آئی نے کھلے عام کہا کہ ہم “اوپن سورس” ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ:
-
جتنا کچھ سیکھیں گے، سب کو بتائیں گے
-
اپنی تحقیق کی فائلیں، کوڈز، رپورٹس سب شیئر کریں گے
-
اور کسی بھی ادارے یا ملک کی اجارہ داری نہیں ہونے دیں گے
آج کل تو کمپنیاں ہر چیز کا “راز” رکھتی ہیں صرف منافع کے لیے۔ لیکن اوپن اے آئی نے اُس وقت یہ کہا: “یہ ٹیکنالوجی صرف طاقتور کمپنیوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ ہر اُس شخص کے لیے ہے جو اسے بہتر مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہے۔
جب راستے جدا ہوئے: ایلون مسک کا ادارے سے الگ ہونا
2018 میں، ایلون مسک نے اچانک اوپن اے آئی کے بورڈ سے استعفیٰ دے دیا۔ بظاہر وجہ تھی کہ ان کی کمپنی “ٹیسلا” میں بھی مصنوعی ذہانت پر کام ہو رہا تھا اور مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہو سکتا تھا۔ لیکن اندر کی بات کچھ اور تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، مسک نے ادارے کی مکمل قیادت سنبھالنے کی خواہش ظاہر کی تھی تاکہ اوپن اے آئی گوگل کے ساتھ تحقیقی دوڑ میں پیچھے نہ رہے۔ جب باقی لوگوں نے ان کی یہ پیشکش رد کر دی تو مسک نہ صرف بورڈ سے الگ ہوئے بلکہ مزید سرمایہ کاری سے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔
راستے بدلتے گئے: منافع بخش ماڈل کی طرف پیش قدمی
ابتدا میں اوپن اے آئی ایک غیر منافع بخش ادارہ تھا۔ لیکن 2019 میں اسے عملی تقاضوں کے تحت “کپیڈ-فور-پرافٹ” ماڈل میں بدلنا پڑا۔ یعنی محدود منافع کی اجازت دی گئی تاکہ ادارہ مزید فنڈز حاصل کر سکے اور بہترین دماغوں کو ساتھ ملا سکے۔ یہی وہ تبدیلی تھی جس پر ایلون مسک نے سب سے زیادہ تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ادارہ اپنے اصل مشن سے بھٹک چکا ہے اور اب ایک تجارتی کمپنی بن گیا ہے، جو مائیکروسافٹ جیسے اداروں کے مفادات کے تحت کام کر رہا ہے۔
حالیہ مقدمہ: نظریاتی جدوجہد کا قانونی رنگ
مارچ 2024 میں، ایلون مسک نے اوپن اے آئی اور سیم آلٹمین کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ادارہ اپنے بانی معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے کیونکہ وہ اب کلوزڈ سورس، منافع بخش کمپنی بن چکا ہے۔ اوپن اے آئی نے اس مقدمے کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ مسک کی خود یہ خواہش تھی کہ ادارہ ایک منافع بخش ماڈل اپنائے، جسے کنٹرول نہ ملنے پر وہ چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
کیا “کھلی ذہانت” اب بند دروازوں کے پیچھے ہے؟
اب سوال یہ ہے: کیا اوپن اے آئی واقعی اپنے مقصد سے ہٹ چکا ہے؟ کیا ایلون مسک کی تنقید جائز ہے یا یہ سب ذاتی اثر و رسوخ کا کھیل ہے؟ اور سب سے بڑھ کر: کیا ہم مستقبل میں ایسی مصنوعی ذہانت دیکھیں گے جو صرف چند اداروں کی ملکیت ہوگی، یا پھر یہ علم واقعی سب کے لیے کھلا رہے گا؟ یہ سوالات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں… اور شاید یہی اس پوری کہانی کا اصل مقصد ہے۔
آپ کی رائے کا انتظار ہے!
کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایلون مسک نے صحیح قدم اٹھایا؟ یا اوپن اے آئی کا نیا ماڈل وقت کی ضرورت ہے؟ ہمیں کمنٹس میں اپنی رائے ضرور دیں!
Source
No Comments