-
Miraj Roonjha
- 1 Comment

کیا اے آئی آپ کی نوکری لے جائے گا؟ اقوام متحدہ نے خبردار کر دیا!
اسلام وعلیکم دوستو! میں ہوں اردو اے آئی سے معراج احمد، اور آج جو خبر میں آپ کے ساتھ شیئر کرنے والا ہوں، وہ صرف ایک رپورٹ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے جو ہمارے مستقبل کو براہ راست چھو سکتی ہے۔ ذرا ایک لمحے کو سوچیں اگر آپ کی نوکری جو آپ برسوں سے کر رہے ہیں، کل ایک مشین سنبھال لے؟ اگر آپ کی کمپنی یہ کہے: “ہمیں انسان کی نہیں، اے آئی کی ضرورت ہے”؟ ڈر گئے؟ حیران ہیں؟ یا بس سوچ میں پڑ گئے؟ تو جان لیجیے، یہ صرف خیالی بات نہیں — بلکہ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، 2033 تک دنیا کی 40 فیصد ملازمتیں اے آئی سے متاثر ہو سکتی ہیں۔
لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی یہ صرف خطرہ نہیں، ایک موقع بھی ہے۔ موقع خود کو تیار کرنے کا، سیکھنے کا، اور اے آئی کی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کا۔ تو آئیے، جانتے ہیں اس رپورٹ میں کیا ہے، کسے سب سے زیادہ خطرہ ہے، اور ہم جیسے عام لوگ اس تبدیلی سے کیسے نمٹ سکتے ہیں؟
معیشت میں بڑی تبدیلی، لیکن خطرے کے ساتھ
اب آپ سوچ رہے ہوں گے، آخر اتنی بڑی تبدیلی ہو کیوں رہی ہے؟ تو دوستو، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2033 تک مصنوعی ذہانت کی عالمی مارکیٹ 4.8 ٹریلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ جی ہاں، یہ وہی رقم ہے جو جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک کی معیشت کے برابر ہے۔
یعنی اے آئی صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں، بلکہ ایک نئی معاشی طاقت بنتی جا رہی ہے۔
لیکن جیسا کہ ہر نئی طاقت کے ساتھ ہوتا ہے، اس میں امکانات بھی ہیں اور خطرات بھی۔ جہاں ایک طرف یہ ترقی نئے معاشی مواقع پیدا کرے گی، وہیں دوسری طرف موجودہ ملازمتیں خاص طور پر وہ جن میں ذہنی مہارت درکار ہے خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔
دلچسپ (اور تشویشناک) بات یہ ہے کہ ماضی میں جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی آئی، اُس نے زیادہ تر فزیکل لیبر یعنی بلیو کالر ملازمتوں کو متاثر کیا۔ لیکن اس بار معاملہ مختلف ہے!
اے آئی کی یہ لہر نالج بیسڈ جابز کو نشانہ بنا رہی ہے۔ جیسے اساتذہ، ریسرچرز، مالیاتی ماہرین، اور ٹیکنالوجی کے پروفیشنلز۔ اور سب سے زیادہ اثر ان ملکوں پر پڑے گا جو ترقی یافتہ ہیں۔ جہاں تعلیم، تحقیق اور ڈیجیٹل معیشت مضبوط ہے۔
تو سوال یہ بنتا ہے:
کیا ترقی یافتہ ملک ہونے کا مطلب اب زیادہ خطرہ ہے؟ یا یہ صرف ایک چیلنج ہے جسے تیاری سے موقع میں بدلا جا سکتا ہے؟
فائدے کس کو؟ سرمایہ یا مزدور؟
دوستو! اب سوال یہ ہے کہ جب اے آئی دنیا میں اتنی بڑی تبدیلی لا رہا ہے تو اس کے اصل فائدے کس کو ملیں گے؟ محنت کرنے والے عام لوگ؟ یا وہ سرمایہ دار جو پہلے ہی ہر نئی ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا لیتے ہیں؟ اقوام متحدہ کی تجارتی اور ترقیاتی ایجنسی، UNCTAD کے مطابق، اے آئی کی ترقی کے زیادہ تر فائدے سرمایہ کو حاصل ہوں گے محنت کو نہیں۔
یعنی وہ لوگ جنہوں نے سالوں کی محنت سے ہنر سیکھا، ڈگریاں لیں، تجربہ حاصل کیا۔ انہیں زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔ جبکہ وہ ادارے یا افراد جن کے پاس پہلے ہی سرمایہ، ٹیکنالوجی اور وسائل ہیں ۔ وہ اے آئی کو استعمال کر کے اور بھی آگے نکل جائیں گے۔ اور اس سب کا مطلب؟ دولت کی تقسیم پہلے سے بھی زیادہ غیر مساوی ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، جہاں پہلے ہی وسائل کم ہیں اور ٹیکنالوجی تک رسائی محدود ہے۔
لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ اقوام متحدہ کی تجارتی اور ترقیاتی ایجنسی، UNCTAD کہتا ہے کہ اگر ترقی پذیر ممالک ابھی سے ہوش کے ناخن لیں، تو وہ اے آئی کو ایک موقع میں بدل سکتے ہیں۔
- ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کریں
- اے آئی سیکھنے اور سکھانے کا نظام بنائیں
- حکمرانی کا ایسا فریم ورک تیار کریں جو سب کو فائدہ دے
کیونکہ اگر ابھی تیاری نہ کی گئی۔ تو یہ اے آئی انقلاب، ترقی کی بجائے ایک نیا بحران بن جائے گا۔
انسان مرکز ہو، مشین نہیں!
دوستو! اب ایک اور اہم سوال ہمارے سامنے آتا ہے: جب دنیا اے آئی کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہے، تو کیا ہم مشینوں کو سب کچھ سونپ دیں؟ یا انسان کو ہمیشہ مرکز میں رکھیں؟
UNCTAD کی سیکریٹری جنرل، ریبیکا گرینسپن کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ترقی کا مطلب صرف معیشت کا بڑھنا نہیں، بلکہ انسانی بھلائی، مساوات اور اجتماعی ترقی بھی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ہمیں چاہیے کہ اے آئی کو اس انداز میں ڈیزائن اور استعمال کریں کہ انسان کی عزت، روزگار اور صلاحیتیں محفوظ رہیں۔
کیونکہ اگر اے آئی صرف چند ملکوں، کمپنیوں یا امیر طبقے کے فائدے کے لیے تیار کیا گیا، تو یہ صرف معاشی فرق نہیں، بلکہ سماجی نابرابری بھی بڑھا دے گا۔
ذرا سوچیے جب اے آئی ہر کام خود کرے گا۔ تو انسان کا کردار کیا رہ جائے گا؟ ہمیں صرف ناظر، کنزیومر یا محتاج بننے کے بجائے شریکِ ترقی بننا ہوگا۔ اور اس کے لیے ضروری ہے کہ دنیا بھر کے ممالک خاص طور پر ترقی پذیر ممالک مل کر ایک عالمی فریم ورک تیار کریں جہاں اے آئی کا استعمال صرف طاقتوروں کی نہیں، بلکہ سب کی ترقی کا ذریعہ بنے۔
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے لیے کیا پیغام ہے؟
تو سوال یہ ہے دوستو: جب دنیا اے آئی کے انقلاب کی طرف دوڑ رہی ہے۔ تو کیا سب ممالک اس دوڑ میں برابر کے شریک ہیں؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ نہیں۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے صرف 100 بڑی کمپنیاں جن میں زیادہ تر امریکہ اور چین کی ہیں دنیا بھر کی 40 فیصد ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (R&D) پر قابض ہیں۔ یعنی علم، تحقیق، اور اے آئی سے فائدہ اٹھانے کی طاقت، صرف چند ہاتھوں میں ہے۔
اور یہی چیز خطرناک ہے۔ کیونکہ اگر ترقی پذیر ممالک نے ابھی قدم نہ اٹھایا تو وہ صرف اے آئی کے صارف بن کر رہ جائیں گے، تخلیق کار کبھی نہیں بن پائیں گے۔
اسی لیے UNCTAD کا صاف پیغام ہے: “ابھی وقت ہے! آگے بڑھیں!” اپنی ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں سرمایہ لگائیں۔ نوجوانوں کو اے آئی ٹریننگ دیں اور سب سے بڑھ کر اے آئی کی عالمی حکمرانی میں اپنی آواز شامل کریں۔ کیونکہ اگر ہم نے ابھی تیاری کی، تو اے آئی صرف چند ملکوں کی طاقت نہیں، بلکہ ہم سب کی ترقی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم خاموش رہے، تو شاید آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہ کریں۔
سفر تو ابھی باقی ہے!
دوستو! ہم نے آج اے آئی کے روشن پہلو بھی دیکھے اور اس کے سائے میں چھپے خدشات بھی۔ ہم نے جانا کہ یہ ٹیکنالوجی کتنا بڑا انقلاب ہے۔ جو اربوں ڈالر کی معیشت لا سکتی ہے، لیکن لاکھوں لوگوں کی نوکریاں بھی لے جا سکتی ہے۔
یہ طے ہے: اے آئی آ رہا ہے، اور بہت تیزی سے آ رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے:
- کیا ہم صرف دیکھتے رہیں گے؟
- یا ہم بھی اس دوڑ میں شامل ہو کر، اپنا حصہ، اپنی آواز، اور اپنی شناخت قائم کریں گے؟
- کیا ہم اے آئی کو صرف ایک خطرہ سمجھیں گے؟
- یا اسے سیکھ کر، سمجھ کر، اپنے لیے ایک موقع میں بدلیں گے؟
یاد رکھیے، تبدیلی کا وقت کبھی کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ اگر ہم نے آج فیصلہ نہ کیا، تو کل اے آئی ہمارے بارے میں فیصلہ کر لے گا۔
تو آپ کیا سوچتے ہیں؟
کیا اے آئی واقعی دنیا کو بدل دے گا؟ یا یہ صرف طاقتوروں کا نیا کھلونا بن کر رہ جائے گا؟ کمنٹس میں ضرور بتائیں۔ کیونکہ آپ کی رائے، ہماری سوچ کو مزید بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے۔ ملتے ہیں اگلے بلاگ میں، ایک نئے موضوع، نئی معلومات، اور نئے جذبے کے ساتھ!
تب تک، سیکھتے رہیے، بڑھتے رہیے اور اپنا خیال رکھیے!
اللہ حافظ!
Shahzananusrat Nusrat Qureshi
Oh,my God amazing this Urdu Ai thank you