
آپ مصنوعی ذہانت سے بھاگ سکتے ہیں، مگر بچ نہیں سکتے
دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال نے صارفین کو دو بڑے رویوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ کچھ افراد روزانہ کی بنیاد پر چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز استعمال کر رہے ہیں، جبکہ کچھ اب بھی ان سے گریزاں ہیں۔ لیکن اوپن اے آئی کے حالیہ اقدامات سے ایسا لگتا ہے کہ مصنوعی ذہانت اب صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص نہیں رہا جو اس سے براہِ راست بات کرتے ہیں، بلکہ ہر اس شخص کے لیے جو کوئی سادہ سی ایپ بھی استعمال کرتا ہے۔
جب مصنوعی ذہانت خاموشی سے زندگی میں داخل ہو
اوپن اے آئی نے حال ہی میں GPT-4.1، GPT-4.1 Mini اور GPT-4.1 Nano کے نام سے نئے ماڈلز متعارف کروائے ہیں۔ یہ ماڈلز کسی چیٹ بوٹ کی طرح سامنے نہیں آتے، بلکہ ایپس کے پس منظر میں کام کرتے ہیں۔ بالکل اس انداز میں جیسے وائی فائی نیٹ ورک آپ کے مقام کے مطابق موسم کی معلومات فراہم کرتا ہے، بغیر اس کے کہ آپ اس کی موجودگی پر غور کریں۔
ایپس میں چھپی مصنوعی ذہانت
اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ ان ماڈلز کو خاص طور پر ڈیولپرز کے لیے تیار کیا گیا ہے، تاکہ وہ اپنی ایپلیکیشنز میں آسانی سے مصنوعی ذہانت کی صلاحیتیں شامل کر سکیں۔
مثال کے طور پر، اگر آپ کی خریداری ایپ خودکار طور پر اشیاء کو کیٹیگرائز کر رہی ہے، یا نوٹس ایپ آپ کے دن بھر کی میٹنگز کا خلاصہ فراہم کر رہی ہے، تو یہ سب انہی ماڈلز کی مرہونِ منت ہو سکتا ہے۔
(متعلقہ مضمون:مصنوعی ذہانت سب کے لیے خواب جسے وسائل کی ضرورت نہیں)
کیا صارف کو معلوم ہونا چاہیے؟
یہ سوال بھی اب شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا صارفین کو مطلع کیا جانا چاہیے کہ وہ جن ایپس کا استعمال کر رہے ہیں ان میں اوپن اے آئی کے ماڈلز کام کر رہے ہیں؟ اگر آپ کی گروسری ایپ پیشگی اندازہ لگا لے کہ آپ کیا خریدنے والے ہیں، تو کیا یہ سہولت ہے یا نگرانی؟ جب مصنوعی ذہانت کسی چیٹ بوٹ کی صورت میں سامنے نہیں ہوتا، تو رازداری اور شفافیت کے تقاضے پورے کرنا مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
ایک نیا صارف جسے علم بھی نہیں
ماضی میں مصنوعی ذہانت صارف وہ سمجھا جاتا تھا جو ChatGPT یا Midjourney جیسے ٹولز استعمال کرتا تھا، لیکن اب ہر وہ شخص جو جدید ایپ کا صارف ہے، وہ دراصل مصنوعی ذہانت سے مستفید ہو رہا ہے چاہے اسے اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔
مثال کے طور پر، WhatsApp کی حالیہ اپ ڈیٹس میں چیٹ جی پی ٹی انٹیگریشن شامل کی گئی ہے، جس کے ذریعے صارفین وائس اور تصویری ان پٹس بھیج سکتے ہیں، اور یہ سب پسِ پردہ GPT ماڈلز کی مدد سے ہو رہا ہے۔
مستقبل میں مصنوعی ذہانت کیا ہوگا؟
ماہرین کے مطابق مصنوعی ذہانت اب محض ایک فیچر نہیں بلکہ ڈیجیٹل دنیا کا بنیادی انفراسٹرکچر بن چکا ہے۔ بالکل وائی فائی یا بجلی کی طرح۔ جب یہ کام کرتا ہے تو محسوس نہیں ہوتا، اور جب رک جائے تو کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ اوپن اے آئی کے ماڈلز بھی اسی تصور پر مبنی ہیں: پسِ پردہ کام کریں، بہتر نتائج دیں اور صارف کو مصنوعی ذہانت کی موجودگی کا احساس نہ ہونے دیں۔
(مزید پڑھیں:مصنوعی ذہانت تعلیم کا مستقبل کیسے بدل رہا ہے؟)
خاموش انقلاب: جب مصنوعی ذہانت نظر نہ آئے، مگر اثر رکھے
اوپن اے آئی کے GPT-4.1 جیسے ماڈلز اب خاموشی سے ہماری روزمرہ ایپس کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ یہ تبدیلی اس قدر غیر محسوس ہے کہ آپ کو شعور بھی نہیں ہوگا کہ آپ کب Aiاستعمال کر رہے ہیں۔ اب اگر آپ واقعی Aiسے بچنا چاہتے ہیں، تو صرف چیٹ جی پی ٹی بند کرنا کافی نہیں ہوگا، بلکہ ہر وہ ایپ چھوڑنی پڑے گی جو آپ کی روزمرہ زندگی میں آسانی لا رہی ہے ۔ شاید خاموشی سے آپ کے فیصلے بھی کر رہی ہو۔Ai اب ایک سہولت نہیں، ایک حقیقت ہے اور اس کے ساتھ جینے کے لیے ہمیں نئی فہم، نئی رازداری کی شرائط اور نئی ذمہ داریاں اپنانا ہوں گی۔
یہ معلومات techRadar کی آفیشل بلاگ سے حاصل کی گئی ہیں: TechRadar – Avoiding ChatGPT won’t keep OpenAI from infusing its AI models into your life
No Comments