مصنوعی ذہانت: روبوٹ کیلئے کام آسان یا مشکل کیوں؟
کیا کبھی ایسے روبوٹ تیار ہو سکیں گے جو بالکل انسانوں جیسی صلاحیت رکھتے ہوں؟ چیٹ جی پی ٹی اور مصنوعی ذہانت کے دیگر منصوبوں کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ سوال اہم ہوتا جا رہا ہے۔
ساتھ ہی ساتھ انجینیئرنگ کی دنیا کا تخیل ایک ایسے روبوٹ کی تیاری کی جانب مائل ہو چکا ہے۔ جو انسان کی طرح سوچتا اور عمل کرتا ہو۔ اس سفر میں اب تک چند نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ ہم جان چکے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے پیچیدہ سوچ کا عمل اور دماغ کی تخلیقی صلاحیت کی نقل کی جا سکتی ہے۔ لیکن ایک روبوٹ جوتے کا تسمہ نہیں باندھ سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روبوٹ میں انسانی سوچ کا عمل محدود کمپیوٹیشن کی مدد سے پیدا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بظاہر سادہ سے انسانی عمل، جیسا کہ تسمے باندھنا یا زمین پر گرا بیگ اٹھانا، کی نقل کے لیے کافی زیادہ کمپیوٹیشن درکار ہوتی ہے۔
اسے ’موراویک پیراڈاکس‘ کہا جاتا ہے۔ کئی ماہرین کے مطابق ایک مکمل ذہین روبوٹ کی تیاری اسی وجہ سے ناممکن ہے۔
گونزالو زابالا روبوٹ ریسرچر ہیں۔ بی بی سی منڈو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انسان لاکھوں سال کے ارتقائی عمل سے گزر کر کئی سادہ سے کام کرنے کے قابل ہوئے جیسا کہ توازن برقرار رکھنا اس لیے کمپیوٹیشنل لیول پر ان کی نقل کرنا فی الحال ناممکن ہے۔ لیکن اس کا الٹ آسان ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ کہ سوچ کا عمل آسانی سے روبوٹ میں ڈالا جا سکتا ہے۔
ہانس موراویک اور ایلن ٹیورنگ
برطانوی سائنسدان ایلن ٹیورنگ مصنوعی ذہانت کے شعبے کے بانیوں میں سے ہیں۔ انھوں نے اپنے مختصر کیریئر کے دوران متعدد مقالے شائع کیے جن میں سے ایک میں روبوٹ اور انسان میں فرق پر بات کرتے ہوئے کئی اہم سوال اٹھائے گئے اور ایک نظریہ پیش کیا گیا۔ اسی نظریے کی مدد سے انجینیئرز اور محققین کو مصنوعی ذہانت کی ترقی کے عمل میں مدد ملی۔ ایم آئی ٹی میں روبوٹکس کے پروفیسر روڈنی بروکس کا کہنا ہے۔ کہ انجینیئرز نے ایسے پروگرام تشکیل دینے پر توجہ مرکوز کی جن کے ذریعے روبوٹ انسان کی طرح لگ سکیں۔
تاہم 1970 کی دہائی کے اختتام تک ایلن ٹیورنگ کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے والے کوئی ٹھوس کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔
روڈنی بروکس کا کہنا ہے کہ اس وقت تحقیق کے لیے فنڈنگ بھی رک گئی کیونکہ یہ واضح نہیں ہو سکا تھا کہ آگے جانے کا راستہ کیا ہے۔ اور اس وقت تک کوئی اہم پیش رفت نہیں ہو پائی تھی۔
مصنوعی ذہانت کے میدان میں پھر متبادل نظریات کی تلاش شروع ہوئی۔ گونزالو زابالا کہتے ہیں۔ کہ پھر انسانی دماغ جیسے سرکٹ تیار کرنے پر کام ہوا جو سوچ سکتا ہو۔ یہی وہ وقت تھا جب یہ معمہ سامنے آیا کہ مصنوعی ذہانت کا عمل تو آسانی سے تیار کر لیا گیا۔ لیکن انسانوں کے بنیادی افعال کسی روبوٹ کو سکھانا تقریباً ناممکن تھا۔ 1980 کی دہائی میں روڈنی بروکس امریکی مارون مسنکی اور آسٹرین ہانس موراویک تینوں نے ہی یہ نتیجہ اخذ کیا۔ ہانس موراویک، جو امریکہ کی کارنیگی میلون یونیورسٹی میں پروفسیر تھے، نے 1988 میں کہا کہ ’کمپیوٹر کو شطرنج سکھانا آسان ہے۔ لیکن جب بات حرکت یا ادراک کی ہو تو ایک سال کے بچے کی صلاحیت دینا بھی ناممکن ہے۔
بنیادی طور پر روبوٹ جتنے سمارٹ ہوتے ہیں اتنے ہی نااہل بھی ہوتے ہیں۔
گونزالو زابالا کا کہنا ہے کہ موراویک پیراڈاکس نے مشاہدات کو سمجھنا آسان کر دیا۔ جب مسئلے کی نشان دہی ہوئی تو ممکنہ حل پر بات ہونا شروع ہوئی۔
انسان نما روبوٹ
اس مسئلے کے حل کے لیے موراویک سمیت روڈنی بروکس اور مسنکی نے نئے پراجیکٹس کا آغاز کیا۔ روڈنی بروکس نے امریکی کمپنی بوسٹن ڈائنیمکس کے ساتھ کام کیا اور آئی روبوٹس نامی کمپنی بنائی۔ بروکس کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم انسانی ذہانت رکھنے والا روبوٹ تیار کرنا چاہتے ہیں۔ تو ہمیں پہلے انسان کی جسمانی خصوصیات رکھنے والا روبوٹ بنانا ہو گا۔‘
یورپی سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے ای سی سی ای روبوٹ پروٹو ٹائپ تیار کیا ہے۔ جس کے ڈھانچے میں پسلیاں، ریڑھ کی ہڈیاں اور انگلیاں تک موجود ہیں۔ یہ روبوٹ انسان جیسی کئی حرکات کر سکتا ہے کیونکہ اس کے تمام حصوں میں سینسر موجود ہیں۔
تاہم ان سائنسدانوں کو بھی اسی مسئلے کا سامنا رہا یعنی کہ اتنا پیچیدہ روبوٹ بھی ایک کپ تک نہیں پکڑ سکتا۔
اس پراجیکٹ سے منسلک ڈاکٹر رولف فائفر کا کہنا ہے۔ کہ ’ایک ذہن انسان نما روبوٹ، جو انسانوں اور انسانی ماحول سے باآسانی نمٹ سکے، کی تیاری کے لیے بہتر کمپیوٹنگ اور بیٹری درکار ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ سنسری ساز و سامان میں بے انتہا جدت بھی۔‘ ان کا کہنا ہے۔ کہ ’جلد تیار کرنا بھی کافی اہم ہو گا کیونکہ چھونے، درد، درجہ حرارت جیسی کیفیات کا احساس اسی کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ موراویک پیراڈاکس کی پیچیدگی کے باوجود انسان نما ذہین روبوٹ تیار کرنے میں وقت تو لگے گا لیکن یہ ناممکن نہیں۔
گونزالو زابالا وضاحت دیتے ہیں۔ کہ موراویک پیراڈاکس نے ایک مسئلے کی نشاندہی کر دی جس کے بعد محققین نے حل تلاش کرنا شروع کیا۔ اسی لیے ہم مصنوعی ذہانت میں انقلاب برپا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ تاہم ان کے لیے یہ انقلاب انسانیت کے لیے خطرہ نہیں۔ ’میں نہیں سمجھتا کہ یہ اختتام ہے جیسا متعدد تجزیہ کاروں نے کہا ہے۔ یہ ایک ذریعہ ہے جو مستقبل کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔‘
بشکریہ: بی بی سی اردو