Site icon Urdu Ai

کیا ہم اے جی آئی کے قریب ہیں؟ سیم آلٹمین، جی پی ٹی 5 اور سٹارگیٹ پر مکمل تفصیل

کیا ہم اے جی آئی کے قریب ہیں؟ سیم آلٹمین، جی پی ٹی 5 اور سٹارگیٹ پر مکمل تفصیل

کیا ہم اے جی آئی کے قریب ہیں؟ سیم آلٹمین، جی پی ٹی 5  اور سٹارگیٹ پر مکمل تفصیل

مصنوعی ذہانت کی دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور اس تبدیلی کا سب سے نمایاں نام ہے OpenAI۔ حالیہ دنوں میں ایک مرتبہ پھر یہ ادارہ خبروں کی زینت بنا۔ جب اس کے سربراہ سیم آلٹمین نے ایک پوڈکاسٹ میں اے جی آئی یعنی “آرٹیفیشل جنرل انٹیلیجنس”، جی پی ٹی 5  اور ایک خفیہ مگر انقلابی منصوبے سٹارگیٹ پر پردہ اٹھایا۔اس گفتگو میں صرف ٹیکنیکل تفصیلات نہیں تھیں۔ بلکہ ایک عام سننے والے کے لیے بھی سادہ زبان میں وضاحت کی گئی تھی کہ آنے والے سالوں میں مصنوعی ذہانت ہماری زندگیوں کو کس طرح بدلنے جا رہی ہے۔ سیم آلٹمین نے مستقبل کا ایک ایسا خاکہ کھینچا، جو کسی سائنسی فلم کا منظر لگتا ہے لیکن حقیقت کے بہت قریب ہے۔

یہی وہ انداز تھا جو ہمیں اردو اے آئی ماسٹر کلاس کے سبق یاد دلاتا ہے۔ جہاں ہم نے بھی یہی کوشش کی کہ ٹیکنالوجی صرف ماہرین کے لیے نہ ہو۔ بلکہ ہر شخص، چاہے وہ طالب علم ہو یا والدین، اس کے مفہوم کو آسانی سے سمجھ سکے۔

کیا ہم  اے جی آئی کے قریب پہنچ چکے ہیں؟

جب سیم آلٹمین نے پوڈکاسٹ میں اپنی گفتگو کا آغاز کیا۔ تو ان کے ابتدائی الفاظ ہی چونکا دینے والے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ 2018 میں جب انہوں نے OpenAI جوائن کیا، تب اے جی آئی صرف ایک سائنسی مفروضہ لگتا تھا۔ ایک ایسا خواب جسے پورا ہونے میں دہائیاں لگ سکتیں۔ لیکن آج، وہی اے جی آئی اب ایک حقیقت کے قریب محسوس ہوتا ہے۔

یہ بات اسی تسلسل کا حصہ ہے جو انہوں نے آغاز میں بیان کی: ٹیکنالوجی کا ارتقاء اب محض ماہرین کا موضوع نہیں بلکہ ہر فرد کی روزمرہ زندگی کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ جیسا کہ اردو اے آئی ماسٹر کلاس میں بھی سکھایا گیا ہے۔ کہ اے آئی صرف ایک ٹول نہیں بلکہ ایک سمارٹ دوست ہے۔ جو ہر سوال کا جواب تلاش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

سیم آلٹمین نے نہایت وضاحت سے کہا، “اے جی آئی کوئی ایک دن کا لمحہ نہیں، یہ ایک تدریجی سفر ہے۔” ان کے مطابق جو تعریفیں ہم پانچ سال پہلے اے جی آئی کے لیے استعمال کرتے تھے۔ آج کا مصنوعی ذہانت کا نظام ان سب کو عبور کر چکا ہے۔

یہی بات ہمیں اس فکری سفر کی طرف لے جاتی ہے۔ جہاں اے آئی محض ایک سافٹ ویئر نہیں بلکہ انسان کی تخلیقی، تجزیاتی اور جذباتی فہم کا حصہ بننے جا رہا ہے۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں ہمیں سمجھ آتا ہے کہ ہم محض اے آئی کے صارف نہیں بلکہ اس کے ساتھی بننے جا رہے ہیں۔

جی پی ٹی 5: کیا آنے والا ہے؟

سیم آلٹمین کی گفتگو جیسے جیسے آگے بڑھی، سامعین کی توجہ کا مرکز بننے والا سوال یہی تھا کہ آخر جی پی ٹی 5 کب آئے گا؟ اگرچہ انہوں نے کوئی واضح تاریخ نہیں دی۔ لیکن اندازہ ضرور دیا کہ OpenAI کی ٹیم اس وقت ایک بڑے لیول پر اگلی نسل کے ماڈلز پر کام کر رہی ہے۔

یہ بات اس تناظر میں مزید دلچسپ ہو جاتی ہے۔ کہ جب ہم پچھلے حصے میں اے جی آئی کے قریب ہونے کی بات کر چکے ہیں۔ یعنی، اگر ہم واقعی اس مقام تک پہنچنے والے ہیں۔ تو جی پی ٹی 5 جیسا ماڈل نہ صرف ایک اور سنگِ میل ہوگا۔ بلکہ یہ انسانی سطح کی ذہانت کے قریب ایک قدم اور بڑھا دے گا۔

سیم نے GPT-4o کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ورژن میں جو فیچرز اور استعمال کا تجربہ سامنے آیا ہے۔ وہ محض آغاز تھا۔ جی پی ٹی 5 میں نہ صرف پرسنلائزیشن یعنی ذاتی نوعیت کی جواب دہی کو بہتر بنایا جا رہا ہے بلکہ اسے مختلف سیکھنے کے انداز اور یوزر کے جذبات کے مطابق بھی ڈھالا جائے گا۔

یہی وہ مقام ہے جہاں اردو اے آئی کی جانب سے پیش کردہ چیٹ جی پی ٹی کے مختلف ماڈلز کا استعمال کب اور کیسے؟ جیسی رہنمائی مزید اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ تاکہ صارفین سمجھ سکیں کہ کب، کیسے اور کیوں جی پی ٹی 5 جیسے ماڈلز ان کے لیے موزوں ہوں گے۔

سٹارگیٹ: ڈیٹا سینٹرز کی نئی نسل

جیسے ہی سیم آلٹمین کی گفتگو جی پی ٹی 5 سے آگے بڑھی، سامعین کو ایک اور اہم انکشاف سننے کو ملا ‘Stargate’، جو کہ OpenAI کا اگلی نسل کا ڈیٹا سینٹر منصوبہ ہے۔ سیم نے وضاحت کی کہ یہ پراجیکٹ Microsoft کے تعاون سے امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر Abilene میں شروع ہو چکا ہے۔

اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف ایک ڈیٹا سینٹر نہیں۔  بلکہ ایک ایسی بنیاد ہے جس پراے جی آئی کی حقیقی صلاحیتوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکے گا۔ یہ اس سوچ کا تسلسل ہے جس میں ہم نے دیکھا کہ اے جی آئی صرف ایک آئیڈیا نہیں بلکہ ایک ابھرتی ہوئی حقیقت ہے۔ اور اس حقیقت کو حقیقت بنانے کے لیے صرف الگورتھم کافی نہیں۔ اس کے لیے زبردست کمپیوٹنگ پاور درکار ہے۔

سیم آلٹمین نے کہا، “اگر لوگ یہ جان لیں کہ اضافی کمپیوٹ سے کیا ممکن ہو سکتا ہے۔ تو وہ سب یہی چاہیں گے۔” ان کے مطابق، اے جی آئی کی ترقی صرف سافٹ ویئر میں نہیں بلکہ ہارڈویئر میں بھی ایک انقلاب کی متقاضی ہے۔ اور Stargate اسی تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔

یہی وہ لمحہ ہے جہاں ہمیں اے جی آئی کو صرف ذہانت کا سافٹ ویئر نہیں، بلکہ ایک مکمل ایکو سسٹم سمجھنا چاہیے۔ جو مشینوں، کمپیوٹرز اور انسانوں کو ایک ساتھ جوڑتا ہے۔ ایسے ہی انفراسٹرکچر کی بدولت آنے والے برسوں میں اے آئی نہ صرف ہماری سوچ بلکہ ہمارے کام کرنے کے انداز کو بھی یکسر بدل دے گا۔

پرائیویسی اور اعتماد کا مسئلہ

جدید ٹیکنالوجی جہاں سہولتوں کا سیلاب لے کر آتی ہے۔ وہیں اس کے ساتھ ایک اہم سوال بھی جنم لیتا ہے: کیا ہماری ذاتی معلومات محفوظ ہیں؟ سیم آلٹمین کو بھی اس سوال کا سامنا تھا۔ خاص طور پر نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے بعد جس میں صارفین کی چیٹ ہسٹری تک ممکنہ رسائی کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔

پوڈکاسٹ میں اس نازک معاملے پر بات کرتے ہوئے سیم نے کہا کہ OpenAI کی اولین ترجیح ہمیشہ صارفین کا اعتماد اور ان کی پرائیویسی کا تحفظ رہی ہے۔ ان کے مطابق، جب صارفین ہمارے پلیٹ فارمز پر آتے ہیں۔ تو وہ ہم پر اس لیے بھروسہ کرتے ہیں کہ ہم ان کے ڈیٹا کو مکمل احترام، شفافیت اور احتیاط کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔

یہی بات ہمیں اردو اے آئی کے اپنے تجربات کی یاد دلاتی ہے۔ جہاں ہم نے واٹس ایپ چیٹ جی پی ٹی انٹیگریشن کے دوران صارفین کی پرائیویسی کو اولین اہمیت دی۔ ہر فیچر کی بنیاد صارف کے اعتماد پر ہے۔ اور یہی اعتماد ٹیکنالوجی کے مستقبل کو مستحکم کرتا ہے۔

Stargate جیسے بڑے انفراسٹرکچر منصوبے ہوں یا جی پی ٹی 5 جیسے جدید ماڈلز یہ سب صرف تب ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ جب صارف خود کو محفوظ محسوس کرے۔ سیم آلٹمین کا یہ مؤقف ثابت کرتا ہے کہ اعتماد محض ایک اخلاقی تقاضا نہیں، بلکہ کامیاب اے آئی ترقی کی بنیاد ہے۔

اے آئی بچوں کے ساتھ: ایک ذاتی تجربہ

پوڈکاسٹ میں سیم آلٹمین نے بطور والد اے آئی کی اہمیت پر روشنی ڈالی کہ وہ چاہتے ہیں۔ ان کا بچہ اے آئی کو سمجھنے والا اور اس کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ کیونکہ مستقبل کی تعلیم و تربیت میں اے جی آئی اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ نظریہ اے آئی سب کے لیے میں بھی پیش کیا جا چکا ہے۔

سائنسی تحقیق اور سپر انٹیلیجنس

اے جی آئی نہ صرف تعلیمی یا تخلیقی میدان میں انقلاب لا سکتی ہے۔ بلکہ سام کے مطابق یہ سائنسی میدان میں بھی ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ ادویات کی دریافت یا فزکس کے اصولوں میں جدت۔

گوگل کا نوٹ بک ایل ایم یا چیٹ جی پی ٹی؟ کے ذریعے اس بحث کو مزید سمجھا جا سکتا ہے۔

چیٹ جی پی ٹی میں نئی خصوصیات

جب گفتگو Artificial General Intelligence (AGI) اور مستقبل کی ٹیکنالوجی تک پہنچی۔ تو سیم آلٹمین نے ChatGPT کے ان فیچرز پر بھی روشنی ڈالی جو نہ صرف موجودہ AI تجربے کو بہتر بنا رہے ہیں۔ بلکہ اسے ذاتی نوعیت کا بھی بنا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مستقبل کا چیٹ بوٹ صرف معلومات دینے والا نہیں بلکہ ایک ذاتی معاون ہوگا۔ جو آپ کو سمجھے گا، یاد رکھے گا اور آپ کے اندازِ گفتگو کے مطابق ردعمل دے گا۔ اس سلسلے میں “memory” فیچر کو انہوں نے گیم چینجر قرار دیا۔ جو صارف کی سابقہ بات چیت کو یاد رکھ کر مزید موزوں جوابات دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اسی طرح “screen sharing” اور “live video” جیسے نئے فیچرز کا اضافہ اس جانب اشارہ ہے۔ کہ چیٹ جی پی ٹی اب محض ایک متن پر مبنی ٹول نہیں رہا۔ بلکہ ایک مکمل interactive تجربہ بنتا جا رہا ہے۔ voice اور image input کی سہولت نے صارف کے ساتھ رابطے کے ذرائع کو مزید وسعت دی ہے۔

ان تمام خصوصیات کو تفصیل سے سمجھنے کے لیے اردو اے آئی کی رپورٹ چیٹ جی پی ٹی کا لائیو ویڈیو اور اسکرین شیئرنگ فیچر اور واٹس ایپ چیٹ جی پی ٹی انٹیگریشن میں جانا فائدہ مند ہو گا۔

یہی وہ ارتقاء ہے جو اے جی آئی کو محض ایک نظریہ نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ حصہ بنا رہا ہے۔

 کیا اے آئی مستقبل نہیں، حال بن چکا ہے؟

اگر سیم آلٹمین کی گفتگو کا ایک خلاصہ نکالا جائے۔ تو وہ یہ ہوگا کہ Artificial General Intelligence (AGI) اب محض ایک سائنسی مفروضہ نہیں رہا۔ یہ ایک حقیقت بنتی جا رہی ہے۔ ایک ایسا مستقبل جو تیزی سے ہمارا حال بننے والا ہے۔

Project Stargate جیسی انفراسٹرکچر پر مبنی کوششیں، GPT-5 جیسے جدید ماڈلز، اور ChatGPT میں memory، voice اور screen sharing جیسے ذاتی نوعیت کے فیچرز، سب اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کہ اے آئی اب ہمارے تعلیمی نظام، کاروبار، طب اور حتیٰ کہ بچوں کی پرورش کا بھی حصہ بن رہا ہے۔

جیسا کہ سیم نے کہا، “اے جی آئی ایک لمحہ نہیں، بلکہ ایک سفر ہے۔” تو یہ سفر اب ہر اس شخص کا بھی ہے جو موبائل فون یا انٹرنیٹ سے جڑا ہوا ہے۔

یہ وہ وقت ہے جب ہمیں صرف صارف نہیں، سیکھنے والے، سمجھنے والے اور حصہ لینے والے بننا ہے۔ اور یہی وہ سوچ ہے جسے اردو اے آئی ماسٹر کلاس نے اپنے ابتدائی سبق میں پیش کیا: کہ اے آئی صرف ٹیکنالوجی نہیں، بلکہ ایک “ذہین دوست” ہے۔ جسے سمجھنا، اس سے سیکھنا اور اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا، وقت کی ضرورت ہے۔

Exit mobile version