ایلون مسک کا گروک 2.5 ماڈل اوپن سورس، لیکن لائسنس کی شرائط کیا ہیں؟
کیا واقعی اوپن سورس کا مطلب سب کے لیے کھلا اور آزاد ہوتا ہے؟ ایلون مسک کی کمپنی xAI نے گروک 2.5 ماڈل کو اوپن سورس کے طور پر جاری کر کے یہ سوال ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔ بظاہر یہ اقدام ڈیولپرز اور ریسرچرز کو ایک بڑے ماڈل تک رسائی دینے کے لیے ہے، لیکن لائسنس کی شرائط نے اس کی اصل آزادی پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
xAI نے اپنا گروک 2.5 ماڈل Hugging Face پر دستیاب کر دیا ہے جہاں سے کوئی بھی محقق یا ڈیولپر اسے ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ ماڈل 42 فائلوں پر مشتمل ہے اور ان کا مجموعی حجم تقریباً 500 جی بی ہے۔ اس بھاری بھرکم سائز کی وجہ سے یہ عام صارفین کے لیے قابلِ رسائی نہیں بلکہ صرف ان اداروں کے لیے موزوں ہے جن کے پاس جدید ہارڈویئر موجود ہے۔ اسے چلانے کے لیے کم از کم آٹھ طاقتور جی پی یوز درکار ہیں، اور ہر جی پی یو میں کم از کم 40 جی بی میموری ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ماڈل اوپن سورس کے طور پر ریلیز کیا گیا ہے، مگر عملی طور پر اس کا استعمال صرف بڑے ادارے ہی کر سکتے ہیں۔
گروک 2.5 کو “Grok 2 Community License Agreement” کے تحت جاری کیا گیا ہے۔ یہ لائسنس بظاہر ماڈل کو استعمال کرنے اور اس میں تبدیلی کی اجازت دیتا ہے، لیکن ایک بڑی پابندی کے ساتھ۔ اس کے مطابق اس ماڈل کو کسی دوسرے اے آئی ماڈل کی تربیت، تیاری یا بہتری کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ یہی شرط ماہرین کو یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ یہ حقیقی معنوں میں اوپن سورس نہیں ہے بلکہ ایک طرح کا “اوپن واشنگ” ہے۔ یعنی بظاہر کھلا لیکن حقیقت میں محدود۔ اوپن سورس سافٹ ویئر فاؤنڈیشنز کے مطابق، حقیقی اوپن سورس لائسنس میں اس قسم کی سخت پابندیاں نہیں ہوتیں، اس لیے اس پر جاری بحث مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ xAI نے اپنے ماڈل عوام کے لیے کھولے ہوں۔ مارچ 2024 میں بھی کمپنی نے گروک 1 کا ماڈل ریلیز کیا تھا۔ لیکن اس بار فرق یہ ہے کہ گروک 2.5 کے وزن اور فائلز کے ساتھ ایک لائسنس کی شرط بھی منسلک ہے۔ اس کے برعکس OpenAI اپنے ماڈلز کے محدود ورژنز ریسرچرز کو فراہم کرتا ہے لیکن ان میں بھی مکمل شفافیت یا کھلی رسائی شامل نہیں ہوتی۔ ایلون مسک کا مؤقف یہ ہے کہ گروک ان لوگوں کے لیے ایک بہتر اور قابل رسائی متبادل ہے جو اوپن سورس کمیونٹی کا حصہ بن کر تجربات اور تجزیات کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم بھاری ہارڈویئر کی ضرورت اور لائسنس کی حدود اسے ہر ایک کے لیے مساوی طور پر قابل رسائی نہیں بناتیں۔
xAI کی اس ریلیز کا ایک مقصد بیرونی ڈیولپرز کو موقع دینا ہے کہ وہ ماڈل کا جائزہ لیں، اس پر تحقیق کریں اور اس کی کمزوریوں یا بہتری کے پہلوؤں کی نشاندہی کریں۔ لیکن بنیادی ترقی اور کنٹرول بدستور xAI کے پاس ہی رہے گا۔ ایلون مسک نے اس موقع پر یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ آئندہ چھ مہینوں میں گروک 3 کو بھی اوپن سورس کر دیا جائے گا۔ اگر یہ وعدہ پورا ہوتا ہے تو ممکن ہے کہ کمیونٹی کو زیادہ طاقتور ماڈل کے ساتھ تجربات کرنے کا موقع ملے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ “اوپن سورس” واقعی اتنا اوپن ہے جتنا دکھائی دیتا ہے؟ اوپن سورس کمیونٹی کے کچھ اراکین کا کہنا ہے کہ جب ماڈل کو دوسرے ماڈلز کی تربیت کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ ہو تو یہ محدودیت ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس کی وجہ سے وہ تحقیق اور جدت رک سکتی ہے جو حقیقی اوپن سورس پالیسیز کے تحت ممکن ہوتی ہے۔ دوسری طرف، xAI کے حامی کہتے ہیں کہ یہ شرط اس لیے ضروری ہے تاکہ دیگر کمپنیاں گروک کو استعمال کر کے اپنے ماڈلز کو زیادہ طاقتور نہ بنا سکیں، اور اس طرح xAI اپنی برتری قائم رکھ سکے۔
مارکیٹ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ریلیز اے آئی کی دوڑ میں ایک اہم قدم ہے۔ xAI اس طرح اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ OpenAI اور دیگر کمپنیوں کے مقابلے میں نمایاں ہو سکے۔ ڈیولپرز کو ایسے ماڈلز تک رسائی دینا جو عام طور پر صرف بند سسٹمز میں موجود ہوتے ہیں، ایک مثبت پہلو ہے۔ لیکن لائسنس کی حدود اور بھاری کمپیوٹنگ ضروریات اس کے حقیقی فائدے کو کم کر دیتی ہیں۔
اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ گروک 2.5 کی ریلیز ایک موقع بھی ہے اور ایک محدودیت بھی۔ موقع اس لیے کہ دنیا کے مختلف حصوں میں محققین اب ایک طاقتور ماڈل کا مطالعہ کر سکتے ہیں، اور محدودیت اس لیے کہ یہ مطالعہ صرف وہی کر سکیں گے جن کے پاس مہنگا اور جدید ہارڈویئر موجود ہے۔ مستقبل میں گروک 3 کی ریلیز اس بحث کو مزید آگے لے جائے گی کہ اوپن سورس واقعی کتنا کھلا ہونا چاہیے، اور کس طرح لائسنس کی شرائط تحقیق کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں۔


No Comments