جیوفری ہنٹن کی چونکا دینے والی پیش گوئی: اگلے 10 سال میں انسانوں کا مستقبل کیا ہو گا؟
اگر آپ آج کل اپنی نوکری کے بارے میں پریشان ہیں تو جیوفری ہنٹن کی حالیہ وارننگ آپ کے خدشات کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ جیوفری ہنٹن کو دنیا بھر میں ’گاڈ فادر آف اے آئی‘ کے طور پر جانا جاتا ہے اور وہ مصنوعی ذہانت کی دنیا کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں اِس وقت اس بات پر سرمایہ کاری کر رہی ہیں کہ انسانی محنت کو مصنوعی ذہانت یعنی اے آئی سے بدلا جائے۔ ان کے مطابق آئندہ دس سال میں یہ فیصلہ کن مرحلہ ہو گا کہ انسان اور مشین کے درمیان کام کی تقسیم کیسی ہو گی۔ لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس وقت کسی کے پاس اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔
ادھر ایلون مسک اور بل گیٹس جیسے ٹیکنالوجی کے بڑے نام بھی خبردار کر چکے ہیں کہ انسانوں کو مستقبل میں کام کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ایلون مسک کا کہنا ہے کہ بیس سال سے بھی کم عرصے میں دنیا میں زیادہ تر انسانوں کو نوکری کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، جب کہ بل گیٹس تو یہ تک کہتے ہیں کہ “زیادہ تر کاموں کے لیے انسان کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔” اینویڈیا کے سی ای او جنسن ہوانگ کے مطابق تو اے آئی ہر شعبے کو بدل دے گی اور ہم ایک چار دن کی ورک ویک کے دور میں داخل ہونے والے ہیں۔ ان بیانات سے ایک چیز تو واضح ہو گئی ہے کہ دنیا کے ٹیکنالوجی لیڈرز مصنوعی ذہانت کو صرف ایک ٹول نہیں بلکہ مکمل مستقبل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اگر بات کی جائے نوکریوں کی، تو متعدد رپورٹس اور تجزیات کے مطابق ڈیٹا انٹری، کسٹمر سروس، ریٹیل سیلز اور اکاؤنٹس جیسے شعبے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ کیونکہ یہ کام ایسے ہیں جنہیں اے آئی آسانی سے خودکار بنا سکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ مہارتیں ایسی بھی ہیں جو مستقبل میں بھی محفوظ مانی جا رہی ہیں جیسے تخلیقی کام، فیصلہ سازی، جذباتی ذہانت، اور ٹیکنالوجی سے متعلق ہنر جیسے کہ کوڈنگ اور ڈیٹا اینالیسس۔ گویا جو افراد سیکھنے کے عمل کو جاری رکھیں گے اور نئی مہارتیں اپنائیں گے وہ ہی اس تبدیلی کے دور میں کامیاب رہیں گے۔
جیوفری ہنٹن کے مطابق یہ تبدیلی صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ بھی ہے۔ اگر اے آئی واقعی کروڑوں نوکریوں کو ختم کر دیتی ہے تو دنیا بھر کی حکومتوں کو سخت فیصلے لینا ہوں گے۔ ان میں سب سے اہم یہ ہو گا کہ لوگوں کو دوبارہ تربیت دے کر نئی مہارتیں سکھائی جائیں۔ اس کے لیے ’ری اسکلنگ‘ اور ’اپ اسکلنگ‘ پروگرامز شروع کیے جانے چاہییں۔ کچھ ماہرین تو اس حد تک بھی چلے گئے ہیں کہ حکومتوں کو ’یونیورسل بیسک انکم‘ پر غور کرنا چاہیے، یعنی ہر شہری کو ایک مخصوص آمدن ریاست کی جانب سے دی جائے تاکہ وہ زندگی گزار سکیں، چاہے ان کے پاس نوکری ہو یا نہ ہو۔
اس وقت دنیا کی بڑی ٹیک کمپنیاں جیسے اوپن اے آئی، مائیکروسافٹ، گوگل اور بل اینڈ میلنڈا فاؤنڈیشن مصنوعی ذہانت پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ ان کا ہدف ہے کہ اے آئی کو نہ صرف ہر کاروبار بلکہ ہر گھر تک پہنچایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ سوال ہر فرد کے ذہن میں آ رہا ہے کہ اگر مشینیں سب کچھ خود کر لیں گی تو انسانوں کا کردار کیا رہ جائے گا؟
یہ مسئلہ صرف فیکٹریوں یا دفاتر تک محدود نہیں ہے۔ تعلیم، صحت، قانونی مشاورت، میڈیا، حتیٰ کہ فنون لطیفہ جیسے شعبے بھی اب اے آئی سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ چیٹ بوٹس کیسے تحریری کام انجام دے رہے ہیں، گرافک ڈیزائنرز کی جگہ اے آئی امیج جنریٹر آ چکے ہیں اور اب تو پروگرامرز بھی کوڈ لکھوانے کے لیے چیٹ جی پی ٹی یا کوپائلٹ جیسے ٹولز استعمال کر رہے ہیں۔
لیکن کیا واقعی یہ سب انسانوں کے لیے خطرہ ہے؟ کچھ ماہرین اس سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر نئی ٹیکنالوجی کی آمد کے ساتھ ہی یہ خدشات پیدا ہوتے ہیں، مگر وقت کے ساتھ لوگ نئے شعبے اختیار کر لیتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات جزوی طور پر درست ہے، لیکن اس بار معاملہ مختلف ہے۔ کیونکہ اے آئی صرف ایک مشین نہیں بلکہ وہ سیکھتی ہے، سوچتی ہے اور اب خود تخلیق بھی کر رہی ہے۔ یہی وہ عنصر ہے جو اسے سابقہ انقلابات سے جدا بناتا ہے۔
لہٰذا ماہرین، پالیسی سازوں اور عام لوگوں کو مل کر یہ طے کرنا ہو گا کہ مستقبل کی یہ ٹیکنالوجی انسانی فلاح کے لیے استعمال ہو، نہ کہ ان کے روزگار چھیننے کے لیے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایسی پالیسیاں بنائیں جن سے اے آئی کا استعمال انسانی کام کو بڑھانے کے لیے ہو، نہ کہ انسانوں کو کام سے نکالنے کے لیے۔ اداروں کو بھی اپنے ملازمین کو اے آئی ٹولز سکھانے کے لیے تربیتی پروگرامز شروع کرنے ہوں گے تاکہ وہ اس تبدیلی کے ساتھ قدم ملا کر چل سکیں۔
افراد کی سطح پر بھی بیداری ضروری ہے۔ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ خود کو بدلتے وقت کے مطابق ڈھالے، نئے کورسز کرے، یوٹیوب اور دیگر آن لائن ذرائع سے سیکھے اور ڈیجیٹل مہارتوں کو اپنا ہتھیار بنائے۔ اگر ہم آج سستی کریں گے تو کل کا وقت شاید ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہو گا۔
آخر میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ مصنوعی ذہانت ایک موقع بھی ہو سکتی ہے اور خطرہ بھی۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم اسے کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ جیوفری ہنٹن کی وارننگ ایک الارم ہے، ایک کال ہے، جسے ہمیں سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ آج اگر ہم نے تیاری نہ کی تو کل یہ تبدیلی ہمیں پیچھے چھوڑ دے گی۔


No Comments