
گوگل کی مصنوعی ذہانت ‘کو-سائنٹسٹ’ نے 10 سالہ سپر بگ مسئلہ صرف 2 دن میں حل کر دیا
ہیلو دوستو! ذرا سوچیں، وہ مسئلہ جسے دنیا کے بہترین سائنسدان 10 سال میں حل نہ کر سکے، گوگل کی مصنوعی ذہانت نے صرف 2 دن میں حل کر دیا! حیرت ہوئی نا؟ چلیے، آپ کو اس حیرت انگیز کہانی کی تفصیل بتاتے ہیں۔
10 سال کی تحقیق، مگر AI نے صرف 2 دن میں جواب دے دیا!
امپیریل کالج لندن کے سائنسدان جوزے پینادیز اور ان کی ٹیم ایک عجیب مسئلے پر کام کر رہے تھے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر کچھ مخصوص سپر بگز اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت (Antibiotic Resistance) کیسے حاصل کرتے ہیں؟ یہ ایک ایسا خطرہ ہے جو ہر سال لاکھوں زندگیاں نگل رہا ہے۔
دس سال کی تحقیق کے بعد، انہوں نے اس معمے کا حل تلاش کر لیا۔ لیکن ذرا ٹھہریے، کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی! جب انہوں نے یہی سوال گوگل کی AI “کو-سائنٹسٹ” سے پوچھا، تو حیران کن طور پر یہ AI محض دو دن میں وہی جواب لے آئی جو سائنسدانوں کو ایک دہائی میں ملا تھا!
سائنسدانوں کا حیران کن ردِعمل
پینادیز کو اتنی حیرت ہوئی کہ انہوں نے فوراً گوگل کو ای میل کی اور پوچھا، “کیا آپ کو پہلے سے ہماری تحقیق کا علم تھا؟” گوگل کی ٹیم نے جواب دیا، “بالکل نہیں!” یعنی AI نے واقعی اپنے طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا۔
یہ تحقیق 19 فروری کو بایوآرکائیو (bioRxiv) پر شائع کی گئی۔ لیکن ابھی اس کا سائنسی جانچ (Peer Review) کا عمل باقی ہے۔ لیکن جو بات سب کو حیران کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ AI نے نہ صرف سوال کا صحیح جواب دیا بلکہ سائنسی تحقیق کو ایک بالکل نئی سطح پر پہنچا دیا۔
اینٹی بایوٹک مزاحمت: ایک خاموش قاتل
ہم سب جانتے ہیں کہ اینٹی بایوٹک کا بے دریغ استعمال ایک خطرناک مسئلہ بن چکا ہے۔ بیکٹیریا، وائرس، فنگس، اور پیراسائٹس ان دواؤں کے خلاف مدافعت پیدا کر لیتے ہیں، جس کی وجہ سے بیماریاں مزید جان لیوا ہو جاتی ہیں۔ اسے “خاموش وبا” بھی کہا جاتا ہے، جو پوری دنیا میں ایک بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔
2019 میں امریکی CDC کی رپورٹ کے مطابق، اینٹی بایوٹک مزاحمت کی وجہ سے دنیا بھر میں کم از کم 12 لاکھ 70 ہزار اموات ہوئیں۔ جن میں سے 35,000 اموات صرف امریکہ میں ہوئیں۔ یہ تعداد 2013 کے بعد سے 52 فیصد بڑھ چکی ہے!
AI نے کیسے مدد کی؟
پینادیز اور ان کی ٹیم نے ایک خاص قسم کے سپر بگ (cf-PICIs) کا مطالعہ کیا۔ جو وائرس سے متاثر ہونے والے بیکٹیریا میں پایا جاتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ وائرس دوسرے وائرس کی “ٹیل” (Tail) لے کر اپنی جینیاتی معلومات بیکٹیریا میں داخل کرتا ہے۔ تجربات نے اس نظریے کو درست ثابت کیا۔
لیکن جب گوگل کے AI سے یہی سوال پوچھا گیا۔ تو اس نے صرف دو دن میں یہی نتیجہ نکالا، جو سائنسدانوں نے برسوں کی محنت کے بعد حاصل کیا تھا۔
کیا AI سائنسی تحقیق میں انقلاب لا سکتا ہے؟
پینادیز کا کہنا تھا:
AI نے تمام شواہد کا جائزہ لے کر امکانات کا تجزیہ کیا، سوالات اٹھائے، تجربات ڈیزائن کیے، اور بالکل وہی مفروضہ پیش کیا جو ہم نے برسوں کی تحقیق کے بعد قائم کیا تھا، مگر یہ سب کچھ محض چند دن میں ہوا۔
یہ تو واقعی حیرت انگیز ہے! اگر AI تحقیق کے آغاز میں شامل ہوتا تو بھی تجربات کی ضرورت باقی رہتی، مگر یہ سائنسدانوں کو درست سمت میں جلدی لے جا سکتا تھا۔ جس سے ان کے سالوں کا وقت بچ جاتا۔
کیا AI تحقیق کے لیے قابلِ بھروسہ ہے؟
اگرچہ یہ دریافت بہت امید افزا ہے، لیکن سائنس میں AI کے استعمال پر ابھی بھی سوالات موجود ہیں۔ کچھ AI پر مبنی تحقیقات ناقابلِ عمل یا غلط ثابت ہوئی ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے ماہرین AI کی جانچ کے لیے نئے اصول اور ٹولز تیار کر رہے ہیں۔ تاکہ اس ٹیکنالوجی کے فائدے حاصل کیے جا سکیں، اور نقصانات سے بچا جا سکے۔
لیکن ایک بات تو طے ہے
AI اب صرف ایک سادہ ٹیکنالوجی نہیں رہی، بلکہ یہ سائنسی دنیا میں ایک نئے انقلاب کی شروعات ہے! آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا AI واقعی سائنسدانوں کا سب سے بڑا مددگار بن سکتا ہے؟ کمنٹس میں اپنی رائے ضرور دیں!
Muzaffar Ahmad Mir
اے ائی نہ صرف تحقیق کے لیے بلکہ جن کاموں کو کرنے میں مہینے لگ سکتے ہیں وہ کچھ گھنٹوں میں یا منٹوں میں ہو رہا ہے۔