کیا ایک سادہ تصویر سے کینسر کی تشخیص اور علاج ممکن ہے؟ جانیں گیگا ٹائم کیا ہے
گیگا ٹائم مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک ایسی نئی ٹیکنالوجی ہے جو کینسر کے مریضوں کے لیے امید کی نئی کرن بن کر سامنے آئی ہے۔ اس ماڈل کی خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف عام اور سستے مائیکروسکوپ سے لی گئی تصویروں کی مدد سے، کینسر کے اندر چھپی معلومات سامنے لا سکتا ہے، جو پہلے صرف مہنگے اور پیچیدہ ٹیسٹوں کے ذریعے ممکن تھا۔ عام طور پر یہ ٹیسٹ ہزاروں ڈالرز کے ہوتے ہیں، لیکن گیگا ٹائم کی بدولت اب وہی کام بہت کم قیمت پر کیا جا سکتا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی دنیا کی مشہور کمپنی مائیکروسافٹ نے امریکہ کی ایک بڑی ہسپتال چین اور ایک یونیورسٹی کے ساتھ مل کر تیار کی ہے۔ انہوں نے 40 ملین یعنی 4 کروڑ خلیات کی تصویروں پر یہ ماڈل سکھایا ہے کہ وہ کیسے ایک سادہ تصویر سے یہ اندازہ لگائے کہ جسم میں کون سی بیماری چھپی ہوئی ہے اور کتنا خطرناک ہے۔
گیگا ٹائم کی بدولت محققین نے 14,256 کینسر کے مریضوں کی تصویروں کا جائزہ لیا، اور ان کی مدد سے 24 قسم کے کینسر اور 306 مزید اقسام کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔ یہ جانکاری عام انسانوں کی زبان میں ایسے سمجھی جا سکتی ہے جیسے کسی ایکسرے یا پرانی رپورٹ کو دیکھ کر ڈاکٹر یہ بتا سکے کہ بیماری کہاں سے شروع ہوئی، کیسے پھیل رہی ہے اور کیا اس پر کوئی دوا اثر کرے گی یا نہیں۔
گیگا ٹائم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ کینسر کے علاج کو ہر انسان کے لیے ذاتی اور مخصوص بنا دیتا ہے۔ یعنی اب ہر مریض کو ایک جیسا علاج دینے کے بجائے، ڈاکٹر یہ دیکھ سکتا ہے کہ کس مریض کے جسم میں کس طرح کی تبدیلی آئی ہے، کون سے پروٹین یا خلیے زیادہ ایکٹو ہیں، اور پھر اسی حساب سے دوا تجویز کر سکتا ہے۔
یہ ماڈل صرف یہ نہیں بتاتا کہ بیماری ہے یا نہیں بلکہ یہ بھی بتا سکتا ہے کہ علاج سے فائدہ ہو گا یا نہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی مریض کو امیونوتھراپی نامی علاج دیا جائے تو گیگا ٹائم یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ کیا مریض کا جسم اس دوا کا مثبت جواب دے گا یا نہیں۔ اگر دوا کام نہیں کرے گی تو ڈاکٹر وقت ضائع کیے بغیر دوسرا علاج تجویز کر سکتے ہیں۔
اس سے پہلے یہ سب کچھ جاننے کے لیے بہت مہنگے mIF ٹیسٹ کیے جاتے تھے۔ ان ٹیسٹوں میں خاص رنگوں اور روشنیوں کی مدد سے خلیات کے اندر دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ یہ ٹیسٹ صرف بڑی لیبارٹریوں میں ہی ممکن ہوتے تھے اور ان کا خرچہ عام انسان کے بس سے باہر ہوتا تھا۔ لیکن گیگا ٹائم نے یہ کام ایک عام سادہ تصویر سے کر دکھایا ہے۔
جب گیگا ٹائم نے ان ہزاروں مریضوں کی تصویروں کا تجزیہ کیا تو اس نے ایک ہزار سے زائد ایسی معلومات فراہم کیں جو ڈاکٹروں اور محققین کے لیے بہت اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ خاص پروٹینز جیسے CD138 یا CD68 کے بارے میں یہ جاننا کہ وہ کس مریض کے جسم میں زیادہ متحرک ہیں اور یہ کیسے کینسر سے جڑے دوسرے عوامل کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ یہ جانکاری اس لیے ضروری ہے کیونکہ اسی بنیاد پر دوا دی جاتی ہے۔
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گیگا ٹائم نے پرانی ٹیکنالوجیوں سے بھی بہتر کام کیا۔ جہاں پرانے سسٹمز تصویر کو اتنا گہرائی سے نہیں سمجھ سکتے تھے، گیگا ٹائم نے تصویر کے اندر کے چھوٹے سے چھوٹے خلیے کو پڑھ کر ہمیں یہ بتایا کہ جسم میں بیماری کیسے پھیل رہی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک عام تصویر میں موجود دھند کو صاف کر کے ہمیں پوری تفصیل سے منظر دکھایا جائے۔
اس ماڈل نے ایک قدم اور آگے بڑھ کر مریضوں کو ان کے علاج اور زندگی کی لمبائی کے لحاظ سے بھی تقسیم کیا۔ مثال کے طور پر، اس نے یہ بتایا کہ کچھ مریض جن کے جسم میں CD3 یا CD8 نامی پروٹین زیادہ تھے، ان کا علاج بہتر رہا اور وہ زیادہ دیر تک زندہ رہے۔ اس سے ڈاکٹروں کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو گئی کہ کس مریض کو کون سی دوا دینی چاہیے اور کس کو نہیں۔
ایک اور شاندار پہلو یہ ہے کہ گیگا ٹائم نے نہ صرف ایک وقت میں ایک پروٹین پر نظر ڈالی بلکہ کئی پروٹینز کو ملا کر بھی تجزیہ کیا۔ جیسے اگر دو پروٹین CD138 اور CD68 دونوں ایک ساتھ فعال ہوں تو اس کا مطلب کچھ اور ہو سکتا ہے، جو کہ صرف ایک کو دیکھ کر سمجھ نہیں آتا۔ اس طرح کے مشترکہ تجزیے سے بیماری کو سمجھنے میں زیادہ گہرائی حاصل ہوئی۔
گیگا ٹائم نے اپنی کارکردگی کو ایک عالمی ڈیٹا بیس TCGA پر بھی آزمایا، جو کہ کینسر کے مریضوں کی ایک بہت بڑی بین الاقوامی ڈیٹا فائل ہے۔ اس نے وہاں بھی ویسے ہی مثبت نتائج دکھائے جیسے اپنے اصل تجربات میں۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ گیگا ٹائم صرف ایک مخصوص ہسپتال یا علاقے کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر کے مریضوں کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے۔
یہ ماڈل صرف سائنسدانوں کے لیے نہیں بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔ جیسے ہی یہ ٹیکنالوجی عام ہسپتالوں میں پہنچے گی، کینسر کی تشخیص سستی، تیز، اور مؤثر ہو جائے گی۔ ایک مریض کو مہینوں ٹیسٹوں کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ صرف ایک سادہ تصویر سے اندازہ لگایا جا سکے گا کہ اسے کیا بیماری ہے، علاج کیسے ہوگا، اور کامیابی کا امکان کتنا ہے۔
مائیکروسافٹ نے گیگا ٹائم کو اوپن سورس یعنی مفت طور پر دنیا کے تمام سائنسدانوں کے لیے دستیاب کر دیا ہے۔ اب دنیا کے کسی بھی ملک کا محقق اسے استعمال کر کے نئی دریافتیں کر سکتا ہے، مریضوں کی مدد کر سکتا ہے، اور بہتر علاج تلاش کر سکتا ہے۔
آخر میں، گیگا ٹائم ایک وژن ہے۔ ایسا وژن جس میں ہر مریض کے جسم کی مکمل تصویر ہو، ہر خلیے کی حرکت کی خبر ہو، اور ہر علاج کا فیصلہ مکمل معلومات کی بنیاد پر کیا جائے۔ یہ ایک ایسی دنیا کا تصور ہے جہاں ٹیکنالوجی اور طب مل کر انسان کی زندگی بچانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ جہاں سادہ تصاویر سے زندگی کے راز کھلتے ہیں، اور جہاں ہر انسان کو وقت پر اور درست علاج ملتا ہے۔
گیگا ٹائم نے یہ ممکن کر دکھایا ہے کہ اب مستقبل کی دوا صرف خواب نہیں بلکہ حقیقت بن رہی ہے۔ ایسی حقیقت جس میں ہر انسان کو برابر کا حق ہو، چاہے وہ کسی بھی ملک، شہر یا گاؤں میں رہتا ہو۔ یہ صرف ایک ماڈل نہیں، ایک انقلابی قدم ہے جو ہمیں ایک بہتر اور صحت مند کل کی طرف لے جا رہا ہے۔

No Comments