
میٹا کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری یا مقامی افراد کی پریشانی؟
فیس بک کی مرکزی کمپنی میٹا اس وقت لوئیزیانا کے ایک چھوٹے سے زرعی قصبے رچلینڈ پیریش میں 40 لاکھ مربع فٹ پر مشتمل ایک نیا مصنوعی ذہانت ڈیٹا سینٹر تعمیر کر رہی ہے۔ یہ سینٹر تقریباً ستر فٹبال کے میدانوں کے برابر ہے۔ جہاں ٹیکنالوجی کی ترقی کی یہ علامت دنیا کے لیے ایک نئی جہت ہے، وہیں اس کے سائے میں بسنے والے مقامی افراد کو ایک مختلف اور تشویشناک صورتحال کا سامنا ہے۔
اس قسم کے ڈیٹا سینٹرز کو ٹھنڈا رکھنے اور ان کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بے پناہ مقدار میں پانی اور توانائی درکار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جارجیا کے نیوٹن کاؤنٹی میں 2018 میں میٹا نے ایک 75 کروڑ ڈالر لاگت کا ڈیٹا سینٹر بنانا شروع کیا، تو کچھ ہی مہینوں بعد قریبی علاقوں میں پینے کے پانی کے مسائل سامنے آنے لگے۔ مقامی باشندوں نے پانی میں تلچھٹ، پانی کا دباؤ کم ہونے اور پانی کا رنگ بھورا ہونے جیسی شکایات کیں۔
بیورلی اور جیف مورس نامی ایک جوڑے نے بتایا کہ ان کے واٹر فلٹرز ہر ماہ بدلنے پڑتے ہیں، اور ان کے گھر کے کئی آلات پانی کی خرابی کی وجہ سے خراب ہو چکے ہیں۔ ان کے بقول، وہ اب اپنے گھر کے نلکے کا پانی پینے سے خوفزدہ ہیں۔
میٹا کمپنی نے اپنی جانب سے یہ موقف دیا کہ ان کے ڈیٹا سینٹر میں زمینی پانی استعمال نہیں ہوتا، اور پانی کا بہاؤ بھی ان گھروں کی سمت میں نہیں جاتا۔ ان کے مطابق، پانی کی ترسیل کی اصل جگہ متأثرہ علاقوں سے دس میل دور ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ایسے ٹیکنالوجی استعمال کر رہے ہیں جو صنعتی معیار کے مقابلے میں پانی کا استعمال کم کرتی ہے، بارش کے پانی کو محفوظ کرتی ہے اور کئی بار پانی کو ری یوز کرتی ہے۔ کمپنی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ 2030 تک اتنا پانی فطرت میں واپس لوٹائے گی جتنا وہ استعمال کرتی ہے۔
لیکن مسائل صرف پانی تک محدود نہیں۔ نیوٹن کاؤنٹی میں موجود ڈیٹا سینٹر علاقے کے کل پانی کے استعمال کا 10 فیصد استعمال کرتا ہے۔ اسی طرح کے دیگر ڈیٹا سینٹرز روزانہ پانچ لاکھ گیلن پانی استعمال کرتے ہیں، جو مقامی سطح پر پانی کی قلت کا سبب بن سکتا ہے۔
اسی دوران، لوئیزیانا میں میٹا کے نئے ڈیٹا سینٹر کے لیے ریاستی حکومت نے بجلی کے تین نئے قدرتی گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس کی فوری منظوری دے دی ہے، جو اس ڈیٹا سینٹر کو دو گیگاواٹ توانائی فراہم کریں گے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس منظوری کا عمل انتہائی جلد بازی میں کیا گیا اور عوام کو کوئی موقع نہیں دیا گیا کہ وہ منصوبے میں تبدیلی کا مطالبہ کر سکیں۔
یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس نئے انفراسٹرکچر کے اخراجات کا کچھ بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔ مقامی باشندوں کو بجلی کے بلوں میں اضافے، پانی کی قلت اور وسائل کی تقسیم کے حوالے سے تشویش لاحق ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میٹا اس منصوبے پر ممکنہ طور پر کئی ٹیکسز سے مستثنیٰ رہے گا، جس سے حکومت کی آمدن میں ہر سال کروڑوں ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔
اس منصوبے کی منظوری میں صرف ایک کمشنر ڈوانٹے لوئس نے مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ یہ ڈیٹا سینٹر کتنی توانائی استعمال کرے گا، یہ وعدہ کیے گئے 500 ملازمتوں کو کس طرح پورا کرے گا، اور کیا گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس سب سے بہتر انتخاب تھے۔
ان کا کہنا تھا: “کچھ معلومات ایسی ہیں جو ہمیں ضرور معلوم ہونی چاہیے تھیں لیکن ہمارے پاس نہیں ہیں۔”
یہ ساری صورتحال ہمیں اس سوال کی طرف لے جاتی ہے کہ کیا ٹیکنالوجی کمپنیوں کو انسانی ضروریات اور قدرتی وسائل کے تحفظ کو پسِ پشت ڈال کر صرف اپنے مفادات کی تکمیل کا حق ہے؟ جہاں میٹا جیسی کمپنیوں کے ڈیٹا سینٹرز عالمی رابطے کے لیے ضروری انفراسٹرکچر مہیا کر رہے ہیں، وہیں مقامی برادریاں ان کے اثرات سے براہ راست متاثر ہو رہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیاں اکثر پانی جیسے وسائل کو بعد کی بات سمجھتی ہیں۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کی ہائیڈرولوجسٹ نوشا اجمی کے مطابق، “یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ کوئی اور اس مسئلے کو بعد میں حل کر لے گا۔”
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس سوچ پر نظرثانی کریں اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو مقامی ماحول، وسائل اور برادریوں کے مفادات کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔
No Comments