
میٹا کا نیا فیصلہ: یورپ میں عوامی پوسٹس اور مصنوعی ذہانت گفتگو سے ماڈلز کی تربیت
مصنوعی ذہانت کے میدان میں تیزی سے ہونے والی پیش رفت کے بعد، اب بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں صارفین کے ڈیٹا کو نئے انداز میں استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اسی سلسلے میں، سوشل میڈیا کی بڑی کمپنی میٹا جو فیس بک اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز کی مالک ہے نے اعلان کیا ہے کہ وہ یورپی صارفین کی عوامی پوسٹس اور میٹا مصنوعی ذہانت سے کی گئی گفتگو کو اپنے مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی تربیت کے لیے استعمال کرے گی۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یورپ میں ڈیٹا پرائیویسی کے حوالے سے قوانین سخت تر ہوتے جا رہے ہیں۔
صارفین کو کیا معلومات دی جائیں گی؟
میٹا کا کہنا ہے کہ یورپ میں اس کے پلیٹ فارمز استعمال کرنے والے صارفین کو ایک نوٹیفکیشن موصول ہوگا جس میں وضاحت کی جائے گی کہ کس قسم کی معلومات استعمال کی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی صارفین کو ایک فارم فراہم کیا جائے گا جس کے ذریعے وہ اپنے ڈیٹا کے استعمال پر اعتراض بھی کر سکیں گے۔
تاہم، کمپنی نے یہ واضح کیا ہے کہ:
-
نجی پیغامات
-
18 سال سے کم عمر صارفین کا ڈیٹا
-
بند یا نجی پروفائلز کا مواد
ماڈلز کی تربیت کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
یورپ میں مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کی راہ میں رکاوٹیں
اگرچہ میٹا نے 2024 میں یورپ میں اپنی مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا اعلان کیا تھا، تاہم آئرلینڈ کی ڈیٹا پروٹیکشن کمیشن نے کمپنی سے اس عمل کو مؤخر کرنے کی درخواست کی۔ اسی دوران ڈیجیٹل پرائیویسی کے لیے کام کرنے والے گروپ NOYB نے بھی یورپی نگران اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اس عمل کو روکے، کیونکہ اس سے سوشل میڈیا صارفین کی پرائیویسی متاثر ہو سکتی ہے۔
صرف میٹا ہی کیوں زیرِ بحث ہے؟
میٹا اس وقت تنقید کی زد میں ہے، مگر وہ اکیلی کمپنی نہیں جو اپنے مصنوعی ذہانت ماڈلز کی تربیت کے لیے صارفین کا ڈیٹا استعمال کر رہی ہے۔ ایلون مسک کی کمپنی X، جو پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانی جاتی تھی، پر بھی یورپی صارفین کا ڈیٹا استعمال کرنے کے الزامات ہیں۔ اسی طرح گوگل اور مائیکروسافٹ بھی ڈیٹا سینٹرز اور ماڈلز کی تربیت کے لیے صارفین کی معلومات سے متعلق تفتیش کی زد میں ہیں۔
ادھر اوپن اے آئی نے حال ہی میں چین اور شمالی کوریا کے بعض صارفین کو اپنی سروسز سے معطل کر دیا ہے، جن پر مشتبہ سرگرمیوں کا الزام ہے۔
مصنوعی ذہانت اور پرائیویسی: ایک مشکل توازن
ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ماڈلز کی تربیت کے لیے ڈیٹا کا استعمال ناگزیر ہے، لیکن اس کے لیے صارفین کی رضامندی اور شفاف طریقہ کار ضروری ہے۔
یورپی قوانین اس وقت دنیا میں سب سے سخت ڈیٹا پرائیویسی اصول فراہم کرتے ہیں، اور انہی کے تحت میٹا جیسے اداروں کو اپنے منصوبوں میں تبدیلیاں کرنا پڑ رہی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سے صارفین یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا مستقبل میں ہم اپنی پرائیویسی پر مکمل کنٹرول رکھ سکیں گے یا یہ صرف ایک رسمی حق بن کر رہ جائے گا۔
مصنوعی ذہانت کا ارتقاء، مگر کس قیمت پر؟
میٹا کا یہ فیصلہ مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ایک اہم پیش رفت ضرور ہے، لیکن یہ پیش رفت کئی اخلاقی اور قانونی سوالات کو بھی جنم دیتی ہے۔ یورپ میں اس حوالے سے جاری بحث سے واضح ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ پرائیویسی کے تحفظ کو بھی سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
میٹا مصنوعی ذہانت چیٹ بوٹ کی سبسکرپشن سروس کامیاب ہوگی یا نہیں؟ یہ سوال اب صرف ٹیک ماہرین کا نہیں، بلکہ عام صارفین کا بھی بنتا جا رہا ہے۔
یہ معلومات reuters کی آفیشل بلاگ سے حاصل کی گئی ہیں۔
No Comments