
ایم آئی ٹی چھوڑنے سے اربوں ڈالر کے ڈیٹا کا بادشاہ: الیگزینڈر وانگ کی کہانی
دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے رجحان نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں کئی نئے چہرے متعارف کروائے ہیں، مگر ان میں سے ایک نام ایسا بھی ہے جس نے محض 28 برس کی عمر میں ڈیٹا کی بنیاد پر اربوں ڈالر کی سلطنت کھڑی کر لی۔ یہ کہانی ہے الیگزینڈر وانگ کی، جو امریکہ کی معروف درسگاہ ایم آئی ٹی کو خیرباد کہہ کر ٹیکنالوجی کے میدان میں داخل ہوئے اور آج دنیا کے کم عمر ترین سیلف میڈ ٹیک ارب پتی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔
ڈیٹا نیا کوڈ ہے
وانگ کی قائم کردہ کمپنی Scale AI آج 14 ارب ڈالر سے زائد مالیت رکھتی ہے اور مصنوعی ذہانت کے لیے بنیادی خام مال یعنی ڈیٹا پر کام کرتی ہے۔ اس کمپنی میں ایک لاکھ سے زائد افراد دنیا بھر سے ڈیٹا لیبلنگ میں مصروف ہیں، جو چیٹ بوٹس اور دیگر AI ماڈلز کو تربیت دینے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ وانگ کے مطابق، ’ڈیٹا نیا کوڈ ہے‘ اور یہی جملہ ان کی کمپنی کا بنیادی نظریہ ہے۔
تعلیم سے کاروبار تک کا سفر
الیگزینڈر وانگ امریکی ریاست نیو میکسیکو کے شہر لاس آلاموس میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والدین معروف سائنسی ادارے سے منسلک تھے۔ وانگ نے بچپن سے ہی ریاضی اور کمپیوٹر سائنس میں دلچسپی دکھائی اور جلد ہی MIT میں داخلہ لیا۔ تاہم کچھ عرصے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ تعلیم کے بجائے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ان کے لیے زیادہ مواقع موجود ہیں۔
Quora میں بطور انجینیئر کام کرنے کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب وقت ہے کچھ نیا کرنے کا۔ ’اگر میں نے یہ خطرہ نہ لیا تو ساری زندگی پچھتاوے میں گزرے گی۔‘
Scale AI کی بنیاد اور ترقی
وانگ اور ان کی ساتھی لوسی گو نے 2016 میں Y Combinator پروگرام میں شمولیت کے بعد Scale AI کی بنیاد رکھی۔ ابتدائی دنوں میں مختلف اقسام کے ڈیٹا پر کام کیا گیا، لیکن اصل کامیابی کمپیوٹر وژن اور سینسر ڈیٹا پر فوکس کرنے سے ملی۔ کمپنی نے Remotasks کے ذریعے کم لاگت مزدوری کے نیٹ ورک کو تشکیل دیا، جس کے تحت دنیا بھر سے ہزاروں افراد ڈیٹا لیبلنگ کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ 2019 میں Scale AI نے یونیکورن کا درجہ حاصل کیا اور OpenAI، امریکی فوج اور گوگل جیسے بڑے اداروں سے معاہدے کیے۔
مشکلات اور نئی راہیں
2023 میں جب Meta نے 40 ملین ڈالر کا معاہدہ منسوخ کیا تو کمپنی کو وقتی دھچکا پہنچا۔ نتیجتاً 20 فیصد اسٹاف کو فارغ کیا گیا، تاہم جلد ہی گوگل کے Gemini ماڈل کے لیے 120 ملین ڈالر کا نیا معاہدہ طے پا گیا۔ اسی دوران Microsoft نے 80 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں ڈیٹا انفراسٹرکچر میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
سیاست میں رسائی
وانگ کا اثر صرف سیلیکون ویلی تک محدود نہیں رہا۔ انھوں نے واشنگٹن میں بھی مضبوط تعلقات قائم کیے۔ ایک امریکی قانون ساز نے انھیں ’سچا دوست‘ قرار دیا، جبکہ تجزیہ کاروں نے انھیں ’چالاک موقع شناس‘ کہا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے AI میں 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ اب ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت پالیسی سازی کا حصہ بن چکے ہیں۔
مصنوعی ڈیٹا کا نیا دور
ایلون مسک کے حالیہ بیان میں کہا گیا کہ اب انسانی ڈیٹا کا دور ختم ہو چکا ہے۔ اور مصنوعی ڈیٹا کی حکمرانی ہے۔ Scale AI بھی اسی سمت میں کام کر رہی ہے، جہاں تربیتی ماڈلز کو خود تخلیق کردہ ڈیٹا سے بہتر بنایا جا رہا ہے، اور یہ عمل انسانی مداخلت کے بغیر جاری ہے۔
آخر میں
الیگزینڈر وانگ کی کہانی صرف ایک فرد کی کامیابی نہیں، بلکہ ایک ایسے دور کی نمائندگی کرتی ہے جہاں ڈیٹا نہ صرف ٹیکنالوجی بلکہ معیشت، پالیسی، اور عالمی طاقت کا مرکز بن چکا ہے۔ جب ٹیکنالوجی، کاروبار اور حکومت ایک دوسرے سے جُڑ جائیں، تو ایسے میں ڈیٹا صرف ایک وسیلہ نہیں بلکہ ایک نئی دنیا کا دروازہ بن جاتا ہے۔ اور وانگ اس دروازے کے اہم ترین نگہبانوں میں سے ایک ہیں۔
یہ معلومات MIT کی آفیشل بلاگ سے حاصل کی گئی ہیں: From MIT dropout to AI mogul – vnExpress
No Comments