Site icon Urdu Ai

مصنوعی ذہانت کی دنیا: اس ہفتے کی 10 بڑی اپڈیٹس

مصنوعی ذہانت کی دنیا: اس ہفتے کی 10 بڑی اپڈیٹس

مصنوعی ذہانت کی دنیا: اس ہفتے کی 10 بڑی اپڈیٹس

مصنوعی ذہانت کی دنیا: اس ہفتے کی 10 بڑی اپڈیٹس

یہ ہفتہ مصنوعی ذہانت کی دنیا میں غیر معمولی پیش رفتوں سے بھرپور رہا۔ اوپن اے آئی، گوگل، میٹا، اور دیگر نمایاں ٹیکنالوجی کمپنیوں نے نہ صرف نئے ماڈلز متعارف کروائے بلکہ ایسے انقلابی فیچرز بھی پیش کیے جو تصاویر، ویڈیوز، آڈیو، اور ایپس کی تیاری کے طریقے ہی بدلنے جا رہے ہیں۔ یہ تبدیلیاں صرف ڈیویلپرز یا ماہرین تک محدود نہیں رہیں بلکہ عام صارفین کے لیے بھی روزمرہ کے استعمال میں آسانیاں اور نئی راہیں کھولتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اس بلاگ میں ہم تفصیل سے جانیں گے کہ جی پی ٹی 5.2، جیمنائی 3 فلیش، فلکس 2، اور دیگر جدید ماڈلز نے کیا کچھ نیا پیش کیا اور ان کا عام زندگی پر کیا اثر پڑنے والا ہے۔

اوپن اے آئی نے اس ہفتے اپنے جدید ترین ماڈل GPT-5.2 کا ایک نیا ورژن متعارف کروایا ہے جسے ’کوڈیکس‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ماڈل خاص طور پر کوڈنگ، سائبر سیکیورٹی اور سوفٹ ویئر انجینئرنگ کے شعبوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ کمپنی کے مطابق کوڈیکس، پچھلے ماڈلز کے مقابلے میں زیادہ درستگی اور رفتار کے ساتھ کام کرتا ہے۔ یہ نہ صرف سادہ کوڈ لکھ سکتا ہے بلکہ پیچیدہ پروگرامنگ مسائل کو بھی حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے ماہرین اور ڈیویلپرز کے لیے یہ ایک قابل اعتماد ساتھی بن جاتا ہے۔ اس کا استعمال ان افراد کے لیے بھی ممکن ہے جو کسی مخصوص کوڈنگ لینگویج میں مہارت نہیں رکھتے مگر ڈیجیٹل پروجیکٹس پر کام کرنا چاہتے ہیں۔

اوپن اے آئی نے صرف ٹیکسٹ ماڈل پر ہی توجہ نہیں دی بلکہ تصویری ذہانت کے میدان میں بھی ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ کمپنی نے GPT Image 1.5 کے نام سے نیا امیج ماڈل متعارف کروایا ہے، جو اب چیٹ جی پی ٹی کے اندر اور ڈیویلپرز کے لیے API کی صورت میں دستیاب ہے۔ یہ ماڈل تصویری ترمیم اور تخلیق میں غیر معمولی کارکردگی دکھاتا ہے اور گوگل کے معروف ماڈل ’Nano Banana Pro‘ کو سخت ٹکر دے رہا ہے۔ اس ماڈل کے ذریعے صارفین نہ صرف تصاویر بنا سکتے ہیں بلکہ ان میں باریک تبدیلیاں بھی کر سکتے ہیں، مثلاً کسی کا لباس بدلنا، پس منظر میں روشنی کا اضافہ کرنا یا کسی جزو کو ہٹانا، وہ بھی انتہائی حقیقت پسندانہ انداز میں ہے۔

دوسری جانب گوگل نے بھی میدان خالی نہ چھوڑا اور مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں اپنی موجودگی مزید مستحکم کرتے ہوئے Gemini 3 Flash کے نام سے نیا ماڈل پیش کیا ہے۔ یہ ماڈل نہ صرف تیز رفتار ہے بلکہ اس کی لاگت بھی دیگر ماڈلز کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ کمپنی کے مطابق، اس کی کارکردگی بڑی حد تک Gemini 3 Pro کے برابر ہے، مگر قیمت صرف چوتھائی۔ یہی بات اسے عام صارف اور ڈیویلپرز دونوں کے لیے پُرکشش بناتی ہے۔ تاہم، ماہرین کا کہنا ہے کہ کم لاگت کے ساتھ ساتھ اس ماڈل میں غلط جوابات دینے (جسے تکنیکی زبان میں ’ہیلوسینیشن‘ کہا جاتا ہے) کا امکان بھی زیادہ ہو سکتا ہے، اس لیے حساس یا سائنسی معلومات کے حصول کے دوران اس کا استعمال احتیاط سے کرنا چاہیے۔

ادھر Black Forest Labs نے بھی اپنے تازہ ترین امیج ماڈل Flux 2 Max کے ذریعے میدان میں ایک نئی پیش رفت کی ہے۔ یہ ماڈل تصویری تخلیق اور ایڈیٹنگ کے لیے خاصا موثر سمجھا جا رہا ہے۔ Flux کی مدد سے صارفین نہ صرف تصاویر میں حسبِ منشا تبدیلیاں کر سکتے ہیں بلکہ کسی شے پر لوگو لگانا، یا ایک ہی تصویر کو مختلف مراحل میں ایڈٹ کرنا بھی ممکن ہے۔ اس ماڈل کی خاص بات اس کی ’کانٹیکسٹ میموری‘ یعنی پہلے کیے گئے ایڈیٹنگ مراحل کو یاد رکھنے کی صلاحیت ہے، جو کہ اس سے پہلے کے کئی ماڈلز میں ایک کمزوری سمجھی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ Flux 2 Max ماڈل کو پیشہ ور گرافک ڈیزائنرز اور ڈیجیٹل تخلیق کاروں کے لیے ایک کارآمد ٹول قرار دیا جا رہا ہے۔

تصویری ماڈلز کے بعد اب بات آڈیو کی دنیا میں ہونے والی ایک بڑی پیش رفت کی۔ میٹا نے اپنے مشہور ماڈل Segment Anything کا ایک نیا ورژن متعارف کروایا ہے جو اب صرف تصاویر یا ویڈیوز نہیں بلکہ آڈیو فائلز پر بھی کام کرتا ہے۔ اس نئے آڈیو ورژن کے ذریعے صارفین کسی بھی صوتی فائل سے مخصوص آوازیں، جیسے کہ صرف گٹار، صرف ڈرمز یا صرف انسانی آواز الگ کر سکتے ہیں۔

یہ فیچر خاص طور پر ان افراد کے لیے انتہائی مفید ہے جو پوڈکاسٹ تیار کرتے ہیں یا موسیقی کی پروڈکشن سے وابستہ ہیں۔ مثلاً اگر کسی ریکارڈنگ میں پس منظر کی آوازیں یا دوسرے آلات کی آواز ریکارڈ میں رکاوٹ بن رہی ہو تو اب انہیں باآسانی ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ ٹول تجرباتی موسیقی، وائس اوور، اور دیگر آڈیو ایڈیٹنگ میں بھی نئے امکانات پیدا کرتا ہے۔ گویا اب آڈیو ایڈیٹنگ بھی ایک کلک کی دوری پر ہے، اور بغیر کسی مہنگے سافٹ ویئر کے، پیچیدہ آوازوں کو کنٹرول کرنا ممکن ہو چکا ہے۔

اسی طرح اڈوب فائر فلائی (Adobe Firefly) نے بھی مصنوعی ذہانت کو ویڈیو ایڈیٹنگ میں نئی جہت دی ہے۔ کمپنی نے اپنے پلیٹ فارم میں ٹیکسٹ پر مبنی ایڈیٹنگ کا فیچر شامل کیا ہے، جس کی مدد سے صارف صرف لکھ کر یہ ہدایت دے سکتا ہے کہ ویڈیو میں کیا تبدیلی کی جائے۔ مثلاً کوئی شخص ویڈیو سے ہٹانا ہو، کسی مخصوص چیز پر روشنی ڈالنی ہو، یا پس منظر میں نیا افیکٹ ڈالنا ہو یہ سب اب ممکن ہے صرف ایک جملے کے ذریعے۔

اگرچہ یہ فیچر فی الحال اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن اس کا مستقبل بے حد روشن نظر آتا ہے۔ جس طرح تصویری ماڈلز نے گرافک ڈیزائن کو آسان بنایا، اسی طرح ٹیکسٹ بیسڈ ویڈیو ایڈیٹنگ ویڈیو پروڈکشن کے عمل کو سادہ، تیز اور سستا بنا سکتی ہے۔ یہ تبدیلی روایتی ویڈیو ایڈیٹرز کے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور ایک موقع بھی—کہ وہ اپنی مہارتوں کو نئی سمتوں میں لے کر جائیں اور اے آئی کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔

Luma AI نے Ray 3 Modify کے نام سے نیا ویڈیو ماڈل پیش کیا ہے جو صارفین کو ویڈیو میں ابتدائی اور آخری فریم دے کر درمیان کا انیمیٹڈ ویڈیو بنانے کی سہولت دیتا ہے۔ گویا آپ کسی تصویر سے مکمل ویڈیو تخلیق کر سکتے ہیں۔ تاہم، ابھی یہ سروس قدرے سست ہے اور مکمل ویڈیو بنانے میں وقت لگتا ہے۔ 

ادھر Clling نے بھی اپنے جدید Video 2.6 ماڈل میں دو نہایت اہم فیچرز شامل کیے ہیں: موشن کنٹرول اور اے آئی وائس کنٹرول۔ یہ فیچرز ویڈیو کی تخلیق میں نئی سطح کی باریکی اور حقیقت پسندی لے کر آتے ہیں۔ اب صارفین کسی بھی ویڈیو میں نہ صرف چہرے کے تاثرات اور ہاتھوں کی حرکات کو کنٹرول کر سکتے ہیں بلکہ کردار کی آواز اور اس کی لب موومنٹ کو بھی بہتر انداز میں ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی خاص طور پر ان افراد کے لیے کارآمد ہے جو اینیمیشن، ورچوئل ایوینٹس یا ڈیجیٹل اوتار بناتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی کردار کسی جملے کو بول رہا ہو تو اس کے ہونٹوں کی حرکت اب اتنی قدرتی لگتی ہے کہ فرق بتانا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ویڈیو اصل ہے یا مصنوعی۔

Clling کا یہ اپڈیٹ ویڈیو کانٹینٹ میں مصنوعی ذہانت کے حقیقی اطلاق کی ایک اور جھلک پیش کرتا ہے، جہاں صرف متن یا تصویر نہیں بلکہ حرکت اور آواز بھی اے آئی کے کنٹرول میں آ چکی ہے۔

علی بابا نے بھی اس دوڑ میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا ہے اور Juan 2.6 نامی نیا ویڈیو ماڈل متعارف کروایا ہے، جو ویڈیو انیمیشن کی دنیا میں ایک نئی جدت لے کر آیا ہے۔ اس ماڈل کی خاص بات یہ ہے کہ صارفین محض ایک آڈیو فائل یا ایک مختصر جملے کی بنیاد پر مکمل اسٹوری بورڈ تخلیق کر سکتے ہیں۔

مثلاً اگر آپ صرف یہ کہیں “کرسمس آگیا!” تو یہ ماڈل ایک مکمل اینیمیٹڈ ویڈیو تیار کر سکتا ہے جس میں کرسمس کی خوشیاں، ماحول، کردار اور پس منظر سب شامل ہوں۔ اس فیچر کے ذریعے ویڈیو پروڈکشن کا عمل انتہائی سادہ اور آسان ہو گیا ہے، جس کے لیے پہلے متعدد افراد اور گھنٹوں کی محنت درکار ہوتی تھی۔

Juan 2.6 خاص طور پر ان لوگوں کے لیے مفید ہے جو مارکیٹنگ، سوشل میڈیا یا ایجوکیشنل کونٹینٹ کے لیے تیز، دلکش اور مختصر ویڈیوز بنانا چاہتے ہیں۔ یہ ماڈل بتاتا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اب صرف ٹول نہیں بلکہ مکمل تخلیقی ساتھی بن چکی ہے۔

مائیکروسافٹ نے بھی مصنوعی ذہانت کی اس دوڑ میں ایک اہم سنگِ میل عبور کیا ہے۔ کمپنی نے Trellis 2 کے نام سے ایک نیا ماڈل متعارف کروایا ہے جو کسی بھی سادہ تصویر کو 3D ماڈل میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ فیچر نہ صرف تکنیکی طور پر حیران کن ہے بلکہ اس کا عملی استعمال بھی بہت وسیع ہے۔

اب کوئی بھی عام فوٹو صرف چند لمحوں میں ایک حقیقت سے قریب تر تھری ڈی ماڈل میں بدل سکتا ہے، جسے مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ سہولت گیمنگ انڈسٹری، ای کامرس، ورچوئل رئیلٹی اور ڈیزائننگ کے میدان میں ایک نئی انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔

مثال کے طور پر اگر ایک آن لائن اسٹور کے پاس صرف ایک تصویر ہے، تو وہ اب اس ماڈل کی مدد سے اسی پراڈکٹ کا تھری ڈی ورژن تیار کر کے اپنے صارفین کو زیادہ بہتر اور تفصیلی ویژول تجربہ دے سکتا ہے۔ Trellis 2 نہ صرف وقت کی بچت کرتا ہے بلکہ پروفیشنل معیار کا نتیجہ بھی فراہم کرتا ہے، جو مصنوعی ذہانت کی اصل طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔

آمازون نے بھی مصنوعی ذہانت کے میدان میں اہم پیش رفت کی ہے۔ کمپنی نے اپنے الیکسا پلس صارفین کے لیے ایک نیا چیٹ فیچر متعارف کروایا ہے، جو بالکل چیٹ جی پی ٹی کی طرز پر کام کرتا ہے۔ اس کے ذریعے صارف اپنے سوالات کو ٹائپ یا بول کر دریافت کر سکتے ہیں، اور یہ فیچر فوری طور پر جوابات فراہم کرتا ہے۔ یہ فیچر خاص طور پر اُن صارفین کے لیے دلچسپ ہو سکتا ہے جو روزمرہ کے کاموں میں تیز رفتار اور ذاتی نوعیت کی معلومات چاہتے ہیں۔

اسی کے ساتھ ساتھ آمازون نے Ring Doorbell میں بھی مصنوعی ذہانت کا انضمام کر دیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص آپ کے دروازے پر آتا ہے اور آپ موجود نہیں ہیں، تو اے آئی خودکار طور پر مہمان سے بات چیت کر سکتا ہے، پیغامات چھوڑ سکتا ہے، یا پیکج وصول کرنے کی ہدایات دے سکتا ہے۔ یہ فیچر مصروف زندگی گزارنے والے افراد کے لیے نہایت کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب، میٹا نے بھی اپنی اے آئی چشموں میں ایک نہایت دلچسپ فیچر “conversation focus” کے نام سے شامل کیا ہے۔ یہ فیچر خاص طور پر اُن حالات میں مددگار ہے جہاں آپ کسی شور شرابے والے ماحول میں موجود ہوں جیسے کیفے، کانفرنس یا کسی عوامی جگہ پر۔ یہ چشمے اب اردگرد کے شور کو فلٹر کر کے صرف اُس شخص کی آواز کو واضح کرتے ہیں جس سے آپ براہِ راست گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔

یہ ٹیکنالوجی صرف ایک فیشن ایبل گیجٹ نہیں، بلکہ سماعت میں بہتری لانے اور فوکسڈ کمیونیکیشن کو ممکن بنانے کا عملی حل بھی ہے۔ روزمرہ زندگی میں اس کا اطلاق خاص طور پر بزرگوں، کمزور سماعت والے افراد یا پھر بہت مصروف ماحول میں کام کرنے والوں کے لیے انقلابی ثابت ہو سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی دنیا میں ہونے والی ان تمام تیز رفتار پیش رفتوں کے درمیان سال 2025 کا “ورڈ آف دی ایئر” بھی ایک ایسی اصطلاح بنی جس کا تعلق براہِ راست اے آئی سے ہے۔ “Slop” کو سال کا سب سے نمایاں لفظ قرار دیا گیا ہے، جو اس مواد کی نشاندہی کرتا ہے جو مصنوعی ذہانت کے ذریعے کم معیار میں اور بڑی مقدار میں تخلیق کیا جاتا ہے۔

یہ لفظ دراصل اُس بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں اے آئی ماڈلز بلا رکاوٹ اور بغیر کسی تخلیقی گہرائی یا ادارتی نگرانی کے مواد تیار کرتے جا رہے ہیں۔ چاہے وہ بلاگز ہوں، ویڈیوز، آڈیوز یا تصویریں مقدار کے لحاظ سے یہ مواد بہت زیادہ ہوتا ہے، مگر معیار اکثر اوقات قابلِ اعتراض رہتا ہے۔

“Slop” کا انتخاب ایک طرح سے تنبیہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی۔ ایک طرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ اے آئی نے تخلیقی کاموں کو جتنا آسان بنایا ہے، وہیں اس سہولت نے ایسے مواد کی بھرمار کو جنم دیا ہے جو معلوماتی یا جمالیاتی لحاظ سے کمزور ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اے آئی خود مسئلہ ہے، بلکہ اصل مسئلہ اس کے بے قابو اور غیر ذمے دار استعمال کا ہے۔

لہٰذا، جہاں ایک طرف اے آئی نے ناقابلِ یقین آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں یہ صارفین اور تخلیق کاروں کے لیے ایک نئی ذمے داری بھی لے کر آیا ہے کہ وہ معیار پر سمجھوتہ کیے بغیر اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کریں۔

مصنوعی ذہانت کے اس تیز رفتار سفر میں ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اب اے آئی ماڈلز زیادہ تیز، سستے اور مؤثر ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے Nvidia نے Neotron 3 کے نام سے تین مختلف ماڈلز Nano، Super اور Ultra  متعارف کروائے ہیں، جو مختلف اقسام کے صارفین اور اداروں کی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے بنائے گئے ہیں۔ ان ماڈلز کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہ اوپن سورس ہیں، یعنی صارفین انہیں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتے ہیں، ان میں تبدیلی کر سکتے ہیں یا انہیں مخصوص کاموں کے لیے فائن ٹیون بھی کر سکتے ہیں۔

یہ رجحان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی صرف بڑی کمپنیوں کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ اب اسے عام ڈیویلپرز، اسٹارٹ اپس اور تحقیقاتی ادارے بھی اپنی مرضی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ خود مختاری نہ صرف اختراعات کے نئے دروازے کھولتی ہے بلکہ مستقبل میں شخصی اے آئی یا کمیونٹی بیسڈ سلوشنز کی راہ بھی ہموار کرتی ہے۔

دوسری جانب، چینی کمپنی Xiaomi نے Mimo V2 Flash اور Manis نے Manis 1.6 کے ذریعے مصنوعی ذہانت کی دنیا میں قابلِ ذکر پیش رفت کی ہے۔ یہ دونوں ماڈلز خاص طور پر ریزننگ، کوڈنگ اور کریئیٹو ڈیزائن جیسے پیچیدہ کاموں میں مؤثر ثابت ہو رہے ہیں۔ ان ماڈلز نے یہ ثابت کیا ہے کہ صرف مغربی کمپنیاں ہی نہیں بلکہ ایشیائی کمپنیاں بھی اب اے آئی کی دوڑ میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔

ان تمام زمینی ترقیوں کے ساتھ ایک نہایت دلچسپ اور حیران کن اعلان خلا سے بھی سامنے آیا۔ StarCloud نامی کمپنی نے انکشاف کیا ہے کہ وہ اپنے پہلے اے آئی ماڈل کی تربیت زمین سے باہر، خلا میں کر رہی ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ چونکہ خلا میں درجہ حرارت قدرتی طور پر کم ہوتا ہے، اس لیے ڈیٹا سینٹرز کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے درکار توانائی کی بچت ممکن ہو گی، اور اسی کے ساتھ سورج کی مسلسل روشنی سے بجلی کی ضرورت بھی پوری کی جا سکتی ہے۔

تاہم، ماہرین اس منصوبے پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خلا میں ہیٹ ڈسپیشن (یعنی اضافی حرارت کو خارج کرنے) کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں ہے، کیونکہ خلا ایک ویکیوم ہے جہاں روایتی طریقے سے گرمی نہیں نکالی جا سکتی۔ اس کے علاوہ، خلائی ملبہ (space debris) ایک اور بڑا خطرہ ہے، جو ہزاروں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے خلا میں گردش کر رہا ہے۔ ان ملبوں سے بچنے کے لیے ہر سیٹلائٹ کو مسلسل اپنی پوزیشن تبدیل کرنی پڑتی ہے، جس کے لیے ایندھن اور پیچیدہ نظام درکار ہوتا ہے۔

لہٰذا، اگرچہ اے آئی کو خلا میں تربیت دینے کا خیال نہایت دلچسپ اور سائنسی فلموں جیسا لگتا ہے، لیکن اس میں تکنیکی، مالی اور سیکیورٹی کے کئی چیلنجز موجود ہیں۔ یہ اعلان اس بات کی علامت ضرور ہے کہ اے آئی اب صرف زمین کی حد تک محدود نہیں رہا، مگر اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ابھی کئی رکاوٹیں عبور کرنا باقی ہیں۔

یہ تمام پیش رفتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا میدان ایک نیا رخ اختیار کر چکا ہے۔ اب یہ صرف ایک تکنیکی تجربہ نہیں رہا بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔ ہر ہفتے کوئی نہ کوئی نیا ماڈل، فیچر یا اپڈیٹ سامنے آتا ہے، جو یہ بتاتا ہے کہ اے آئی صرف مستقبل کا خواب نہیں بلکہ حال کی حقیقت بن چکا ہے۔

اگرچہ کچھ ٹیکنالوجیز ابھی تک مکمل پختہ نہیں ہوئیں، اور ان میں سست رفتاری، درستگی کی کمی یا پیچیدہ یوزر انٹرفیس جیسے مسائل موجود ہیں، لیکن جس رفتار سے ترقی ہو رہی ہے، وہ حیران کن ہے۔ چاہے وہ کوڈنگ ہو، تصویر سازی، ویڈیو ایڈیٹنگ، آواز کی شناخت، یا تھری ڈی ماڈلنگ ہر میدان میں اے آئی اپنی جگہ بنا چکا ہے۔

تاہم، اس سارے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ ہم اے آئی کو صرف ایک “دلچسپ کھلونا” نہ سمجھیں، بلکہ اس کے معاشرتی، ثقافتی اور پیشہ ورانہ اثرات کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ ٹیکنالوجی جتنی طاقتور ہوتی ہے، اس کے استعمال میں اتنی ہی ذمہ داری درکار ہوتی ہے۔ اے آئی سے جُڑی سہولیات کے ساتھ ساتھ، ہمیں “slop” جیسے مسائل کا بھی ادراک ہونا چاہیے تاکہ ہم مقدار پر نہیں بلکہ معیار پر توجہ دیں۔

لہٰذا، اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اے آئی کو محض حیرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے اسے سنجیدگی سے اپنائیں، سیکھیں، اور استعمال کریں لیکن سوچ سمجھ کر، ذمہ داری سے، اور مقصدیت کے ساتھ۔

Exit mobile version