
یونیسکو کا مؤقف: تعلیم میں مصنوعی ذہانت کا کردار کیا ہونا چاہیے؟
آج بھی دنیا بھر میں کروڑوں بچے معیاری تعلیم سے محروم ہیں۔ مصنوعی ذہانت امید کی ایک نئی کرن ضرور ہے۔ مگر سوال یہ ہے: کیا یہ ٹیکنالوجی واقعی سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کر سکتی ہے یا یہ فرق اور بھی بڑھا دے گی؟ دنیا بدل رہی ہے اور تعلیم کا انداز بھی۔ اس بدلاؤ میں سب سے اہم کردار مصنوعی ذہانت کا ہے۔ یہ ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو انسانی ذہانت کی نقل کر کے مشینوں کو سکھاتی، سمجھاتی اور فیصلہ سازی میں مدد دیتی ہے۔ لیکن کیا تعلیم جیسے حساس شعبے میں اسے اتنی آزادی سے استعمال کرنا درست ہوگا؟
اقوامِ متحدہ کی تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی تنظیم یونیسکو نے تعلیم میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر جامع تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق، اے آئی کے ذریعے ایسے سیکھنے کے ماحول تخلیق کیے جا سکتے ہیں، جو طلبہ کی انفرادی ضروریات، سیکھنے کی رفتار اور دلچسپیوں کے مطابق ڈھل سکیں۔ یونیسکو نے اپنے بیجنگ کنسینس کے تحت پالیسی سازوں کے لیے ایک رہنما دستاویز بھی شائع کی ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ اے آئی کا استعمال تعلیم میں کیسے مؤثر مگر محفوظ انداز میں ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
یہ ٹیکنالوجی نہ صرف تعلیم کو ذاتی نوعیت کا بناتی ہے بلکہ دور دراز علاقوں میں جہاں اسکول اور اساتذہ کی کمی ہے۔ وہاں بھی تعلیم کی رسائی ممکن بناتی ہے۔ مثال کے طور پر، ایک غریب گاؤں میں رہنے والا طالبعلم کسی جدید شہر میں تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم کی طرح ہی معیاری مواد تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ صرف ایک موبائل اور انٹرنیٹ کنیکشن کے ذریعے۔
اساتذہ کے لیے بھی اے آئی مفید ہے۔ وہ وقت طلب کام جیسے کہ اسائنمنٹس چیک کرنا، طلبہ کی کارکردگی کا ڈیٹا تیار کرنا یا امتحانی نتائج کا تجزیہ یہ سب کام اے آئی کے سپرد کر سکتے ہیں۔ اور خود طلبہ کی رہنمائی، تربیت اور انفرادی مسائل پر توجہ دے سکتے ہیں۔
تاہم جہاں فوائد ہیں، وہاں خطرات بھی۔ سب سے بڑا خطرہ ہے ڈیجیٹل تقسیم، یعنی وہ فرق جو ان طلبہ میں پیدا ہوتا ہے جن کے پاس انٹرنیٹ اور آلات موجود ہیں اور جو اس سے محروم ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں اب بھی لاکھوں بچوں کے پاس اسکول جانے کی سہولت نہیں، وہاں اے آئی کی بات تب ہی معنی خیز ہو سکتی ہے جب حکومتی سطح پر بنیادی انفراسٹرکچر فراہم کیا جائے۔
اسی طرح ایک اور خطرہ ہے پرائیویسی۔ اگر طلبہ کا ذاتی ڈیٹا اے آئی سسٹمز میں محفوظ کیا جا رہا ہے تو یہ یقینی بنانا بھی ضروری ہے کہ وہ ڈیٹا محفوظ اور خفیہ رہے۔ خاص طور پر بچوں کی معلومات کے تحفظ کے لیے مضبوط قوانین اور ضابطے ہونے چاہییں۔
یونیسکو نے بارہا یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ تعلیم میں اے آئی کا اطلاق “انسانی مرکزیت” کے اصول پر ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی صرف ایک آلہ ہو، اصل مرکز انسان یعنی طالبعلم اور استاد ہو۔ اے آئی صرف مددگار ہو، فیصلہ ساز نہیں۔
“AI for All” کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہر کوئی اسے استعمال کر سکے۔ بلکہ یہ بھی کہ ہر کوئی اس کے فوائد سے مستفید ہو، چاہے وہ کسی بھی نسل، قوم، زبان یا معاشی پس منظر سے تعلق رکھتا ہو۔ آنے والے سالوں میں تعلیم کا ماڈل مکمل طور پر بدل جائے گا۔ ہائبرڈ تعلیم یعنی آن لائن اور آمنے سامنے کلاسز کا امتزاج عام ہو جائے گا۔ اے آئی پر مبنی سسٹمز طلبہ کے سیکھنے کے انداز کو پہچان کر اسی کے مطابق مواد فراہم کریں گے۔
یاد رہے کہ تعلیم صرف علم کی فراہمی نہیں بلکہ کردار سازی کا عمل بھی ہے۔ اے آئی جتنا بھی طاقتور ہو، اس میں وہ جذبہ، ہمدردی اور فہم نہیں جو ایک استاد اپنے شاگرد کو دے سکتا ہے۔ اس لیے اے آئی کو استاد کا متبادل نہیں بلکہ اس کا مددگار سمجھنا چاہیے۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اب بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ سب سے پہلے پالیسی سازوں کو چاہیے کہ وہ تعلیم میں اے آئی کے استعمال کے لیے واضح رہنما اصول بنائیں۔ اساتذہ کو تربیت دی جائے، انٹرنیٹ اور آلات کی رسائی بڑھائی جائے، اور دیہی علاقوں میں خاص توجہ دی جائے۔
تعلیم میں مصنوعی ذہانت ایک ایسا دروازہ ہے جو لاکھوں بچوں کے لیے علم، ہنر اور ترقی کے نئے راستے کھول سکتا ہے۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب یہ دروازہ سب کے لیے کھلے، مساوات پر مبنی ہو، اور حفاظت، شفافیت اور انسانی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جائے۔
اردو اے آئی پر مزید مضامین، خبروں اور رہنمائی کا مطالعہ کر سکتے ہیں، جو خاص طور پر اردو زبان میں جدید ٹیکنالوجی اور تعلیم کے انضمام پر مواد فراہم کرتا ہے۔
No Comments