2026 میں مصنوعی ذہانت کیا کرے گی؟ سٹینفرڈ ماہرین کی پیش گوئیاں
سنہ 2026 میں مصنوعی ذہانت ایک ایسے موڑ پر کھڑی ہے جہاں یہ طے کیا جا رہا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی واقعی لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے یا نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی۔ مختلف کمپنیوں نے دعویٰ کیا کہ یہ ٹیکنالوجی ہر شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لا سکتی ہے، چاہے وہ تعلیم ہو، صحت ہو یا قانون۔ لیکن اب ماہرین کہہ رہے ہیں کہ وقت آ گیا ہے کہ ہم اس کے اصل فائدے اور نقصان کو جانچیں۔
سٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 2026 میں اب لوگوں کی توجہ اس بات پر ہو گی کہ مصنوعی ذہانت کتنی مؤثر ہے، اس پر کتنا خرچ آتا ہے، اور یہ عام آدمی کے لیے کتنی فائدہ مند ہے۔ سادہ لفظوں میں، اب ہم یہ نہیں پوچھ رہے کہ “کیا مصنوعی ذہانت یہ کام کر سکتی ہے؟” بلکہ اب سوال یہ ہے کہ “کیا یہ کام بہتر طریقے سے، کم وقت میں، اور کم لاگت سے کر سکتی ہے؟”
سٹینفرڈ یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر جیمز لینڈے کہتے ہیں کہ اس سال Artificial General Intelligence، یعنی ایسا کمپیوٹر سسٹم جو انسان جیسا مکمل ذہن رکھتا ہو، وہ ابھی نہیں آئے گا۔ لیکن دنیا بھر کے ممالک اب یہ سوچنے لگے ہیں کہ وہ اپنا الگ مصنوعی ذہانت نظام بنائیں تاکہ وہ امریکہ یا کسی بڑی ٹیک کمپنی پر انحصار نہ کریں۔ اس کو “AI Sovereignty” یعنی مصنوعی ذہانت میں خودمختاری کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، متحدہ عرب امارات اور جنوبی کوریا نے اپنے ڈیٹا سینٹرز بنانا شروع کر دیے ہیں تاکہ وہ اپنی معلومات کو اپنی سرزمین پر رکھ سکیں اور خود فیصلہ کر سکیں کہ ان کا ڈیٹا کیسے استعمال ہو۔
پروفیسر جیمز کا کہنا ہے کہ اب بہت سی کمپنیوں کو یہ بھی سمجھ آ رہا ہے کہ مصنوعی ذہانت ہر جگہ کامیاب نہیں ہو رہی۔ بہت سے مصنوعی ذہانت منصوبے ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ ان سے فائدہ کم اور خرچ زیادہ ہوا۔ مگر ان ناکامیوں سے سبق سیکھ کر کمپنیاں اب سوچ سمجھ کر مصنوعی ذہانت کو استعمال کریں گی۔ ہو سکتا ہے کہ ہم ایسی مصنوعی ذہانت ایپس دیکھیں جو صرف چیٹ بوٹ یا سرچ باکس نہ ہوں، بلکہ مخصوص کاموں کے لیے ڈیزائن کی گئی ہوں، جیسے اسکولوں میں ٹیچنگ اسسٹنٹ، یا ہسپتالوں میں نرسنگ ہیلپر۔
پچھلے سال بہت بڑی بڑی اے آئی ماڈلز بنائی گئیں، مگر اب ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اتنی بڑی ماڈلز کی ضرورت نہیں۔ چھوٹے، مگر معیاری ڈیٹا سے بنی مصنوعی ذہانت زیادہ بہتر کام کرتی ہے۔ اس سال ایسی کوششیں ہوں گی کہ بہتر، صاف، اور کم ڈیٹا سے اچھی اے آئی ماڈلز بنائی جائیں جو نہ صرف تیز ہوں بلکہ کم خرچ بھی ہوں۔
ویڈیو بنانے میں بھی مصنوعی ذہانت نے ترقی کی ہے۔ اگرچہ ابھی ان میں کچھ خامیاں ہیں، لیکن اب یہ اتنی اچھی ہو گئی ہے کہ لوگ اسے فلم، ڈرامے، اور تعلیمی ویڈیوز بنانے میں استعمال کرنے لگے ہیں۔ مگر اس سے کاپی رائٹ جیسے مسائل بھی پیدا ہوں گے، کیونکہ مصنوعی ذہانت اکثر موجودہ ویڈیوز یا تصاویر سے سیکھتی ہے اور اگر وہ مواد کسی اور کا ہو تو قانونی مسئلے پیدا ہو سکتے ہیں۔
پروفیسر رس آلٹمن، جو طب اور حیاتیات کے ماہر ہیں، کہتے ہیں کہ سائنس کے میدان میں مصنوعی ذہانت کا کردار دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔ پہلے صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ مصنوعی ذہانت کیا نتیجہ دے رہی ہے، مگر اب سائنسدان اس بات پر بھی تحقیق کر رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت یہ نتیجہ کیسے نکالتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی بچے سے پوچھیں کہ اس نے مسئلہ کیسے حل کیا، تاکہ آپ کو پتا چلے کہ وہ صحیح طریقہ اپنا رہا ہے یا نہیں۔
طبی میدان میں، پروفیسر کرٹس لنگلوٹز کا کہنا ہے کہ پہلے ہسپتالوں میں اے آئی ماڈل بنانے کے لیے مہنگے ماہرین کی ضرورت ہوتی تھی تاکہ وہ ڈیٹا کو لیبل کریں۔ مگر اب نئے طریقوں سے بغیر لیبل کے ڈیٹا سے بھی اے آئی ماڈل بن سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ کم پیسے میں زیادہ مؤثر طبی مصنوعی ذہانت بن سکے گی۔ یہ نظام جلد ہی بہت سی بیماریوں کی تشخیص میں ڈاکٹرز کی مدد کرے گا۔
قانون کے میدان میں پروفیسر جولین نیارکو بتاتے ہیں کہ پہلے لوگ مصنوعی ذہانت سے صرف اتنا چاہتے تھے کہ یہ قانونی دستاویز لکھ دے۔ مگر اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ “کیا یہ مصنوعی ذہانت صحیح دستاویز لکھ رہی ہے؟”، “کیا یہ وقت پر کام کر رہی ہے؟” اور “کیا اس میں کوئی قانونی غلطی تو نہیں؟” اب قانونی ادارے مصنوعی ذہانت کو آزمانے کے لیے نئے معیار بنا رہے ہیں تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ یہ کتنی قابل اعتماد ہے۔
سٹینفرڈ یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات ایرک برنیولفسن کہتے ہیں کہ 2026 میں ہم مصنوعی ذہانت کے معیشت پر اثرات کو بہتر طریقے سے جانچ سکیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی ڈیش بورڈز بنیں گی جو ہمیں روزانہ کی بنیاد پر یہ بتائیں گی کہ مصنوعی ذہانت سے کون سی نوکریاں متاثر ہو رہی ہیں، کہاں کام بہتر ہو رہا ہے، اور کون سے شعبے میں نیا روزگار پیدا ہو رہا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے حکومت ہر مہینے مہنگائی اور بے روزگاری کا ڈیٹا جاری کرتی ہے۔
نگم شاہ، جو سٹینفرڈ ہسپتال میں چیف ڈیٹا سائنٹسٹ ہیں، کہتے ہیں کہ اب مصنوعی ذہانت کمپنیاں براہِ راست مریضوں سے رابطہ کریں گی۔ مثال کے طور پر، ایسی ایپس بنیں گی جو مریض کو بتائیں گی کہ ان کی بیماری کیا ہو سکتی ہے، یا انہیں کون سی دوا لینی چاہیے۔ مگر یہ بھی ضروری ہو گا کہ مریض کو بتایا جائے کہ یہ مصنوعی ذہانت ان کو یہ مشورہ کس بنیاد پر دے رہی ہے۔
آخر میں، پروفیسر دیئی یانگ کہتی ہیں کہ ہمیں مصنوعی ذہانت کو صرف ٹیکنالوجی نہ سمجھنا چاہیے بلکہ ایک ایسا ساتھی تصور کرنا چاہیے جو انسان کی سوچ، جذبات، اور زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دے۔ انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت صرف وقتی فائدے یا تفریح کے لیے نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسے انسان کی طویل مدتی بھلائی کو سامنے رکھ کر بنایا جانا چاہیے۔
خلاصہ یہ ہے کہ سنہ 2026 میں دنیا بھر کے ماہرین اور ادارے مصنوعی ذہانت کو زیادہ گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ hype، شور اور بڑے بڑے دعووں کی جگہ اب حقیقت، شفافیت اور کارکردگی پر زور ہو گا۔ مصنوعی ذہانت صرف ایک حیرت انگیز ایجاد نہیں، بلکہ ایک نازک اور سنجیدہ ٹیکنالوجی ہے جسے سمجھداری سے استعمال کرنا ضروری ہے تاکہ یہ سب کے لیے مفید ثابت ہو۔

