
جب لکھنے کو دل کرے اور الفاظ نہ ہوں، کیا جی پی ٹی مددگار ہوسکتا ہے؟
کیا کبھی آپ کا دماغ بھی خالی ہو جاتا ہے؟
کبھی آپ نے لکھنے کی کوشش کی ہو یا کوئی نیا خیال سوجھانے کی کوشش کی ہو۔ لیکن دماغ جیسے رک سا گیا ہو؟ ایسا لگتا ہے جیسے سوچیں ایک بس اسٹاپ پر کھڑی ہیں اور اگلی “خیالی بس” کا کوئی پتہ نہیں۔ یہ کیفیت نئے لکھاریوں یا فنکاروں تک محدود نہیں یہ ہر اُس شخص کے ساتھ ہو سکتی ہے جو کچھ نیا سوچنے یا تخلیق کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ ایسے وقت میں اگر کوئی آپ سے ایک الگ سا سوال کرے۔ یا بچپن کی کوئی بھولی بسری یاد دلا دے تو اکثر دماغ کی بند کھڑکی کھل جاتی ہے۔ یہی وہ موقع ہے جہاں چیٹ جی پی ٹی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک ایسا ٹول جو آپ سے سوال کرتا ہے، تجاویز دیتا ہے اور سوچ کے پہیوں کو دوبارہ حرکت میں لے آتا ہے۔
کیا آپ نے کبھی چیٹ جی پی ٹی کو تخلیقی کام کے لیے آزمایا ہے؟
اگر آپ نے چیٹ جی پی ٹی سے کبھی تخلیقی مشورہ لیا ہے۔ تو آپ کا تجربہ کیسا رہا؟ کیا سب کچھ آسان لگا؟ کیا وہ عمل دلچسپ تھا؟ یا آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ جواب کچھ الگ سا، شاید تھوڑا مصنوعی ہے؟
ماہین کا تجربہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ وہ ایک بلاگ لکھ رہی تھیں لیکن کہانی ایک مقام پر آ کر رک گئی۔
انہوں نے چیٹ جی پی ٹی سے صرف اتنا کہا: “مجھے کچھ ایسے سوال دے دو جو میرے کردار کو دلچسپ بنا سکیں۔”
چند لمحوں میں چیٹ جی پی ٹی کی طرف سے سوالات کی فہرست آئی اور انہی سوالات نے ماہین کی کہانی کو ایک نیا زاویہ دے دیا۔ یہ صرف ایک مثال ہے، مگر ایسی کئی کہانیاں ہیں جہاں چیٹ جی پی ٹی نے تخلیقی سوچ کو وہ چھوٹا سا دھکا دیا جس کی انسان کو ضرورت تھی۔
اگر آپ نے آزمایا، تو نتیجہ کیسا رہا؟
اگر آپ نے چیٹ جی پی ٹی سے کوئی تخلیقی پرامپٹ لیا ہو۔ تو کیا واقعی کچھ نیا سوچنے کا موقع ملا؟ کیا آپ نے کوئی مختلف تحریر لکھی؟ یا کم از کم دل ہی خوش ہو گیا کہ کچھ الگ سوچا؟
ایک اور مثال ہے ایک تجربہ ارم کا تھا۔ ارم نے چیٹ جی پی ٹی سے کہا: “کوئی ایسا پرامپٹ دو جس سے میں کچھ نیا لکھ سکوں۔”
چیٹ جی پی ٹی نے تجویز دی: “ایسا خط لکھو جو ایک رنگ، اپنے آرٹسٹ کو جدائی کے موقع پر بھیج رہا ہو۔”
ارم نے نیلے رنگ کی طرف سے خط لکھا اداس، پیارا، اور تھوڑا طنزیہ بھی۔ جب اس نے وہ خط انسٹاگرام پر شیئر کیا، تو اسے نہ صرف پسند کیا گیا، بلکہ کئی قارئین نے کہا: “یہ تو خود ہماری فیلنگز جیسا ہے!”
ایسے ہی لمحے ہیں جو چیٹ جی پی ٹی کو صرف ایک ٹول نہیں، بلکہ تخلیقی ساتھی بنا دیتے ہیں۔
کیا چیٹ جی پی ٹی تخلیقی سوچ میں مدد دیتا ہے یا اُسے کمزور کر دیتا ہے؟
یہ ایک دلچسپ سوال ہے اور شاید ہر تخلیقی شخص کبھی نہ کبھی اس پر ضرور سوچتا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز تخلیق کو “آسان” بنا دیتے ہیں، جیسے ہر کام کا شارٹ کٹ مل گیا ہو۔ جبکہ کچھ افراد کا ماننا ہے کہ جب سوچنے کا کام کوئی اور کرے، تو ہماری “خود سوچنے کی طاقت” کم ہو جاتی ہے۔
لیکن شاید سچ دونوں کے بیچ کہیں ہوتا ہے۔ میری رائے میں چیٹ جی پی ٹی ایک مددگار ساتھی ہے۔ جیسے کوئی دوست جو وقت پر مشورہ دے دے، لیکن اصل فیصلہ آپ کو خود کرنا ہو۔
خیال، جذبہ، اور اصل تخلیق وہ تو دل اور دماغ سے ہی نکلتی ہے اور وہ کام اب بھی صرف آپ کا ہے۔
کیا آپ کے پاس کوئی اپنا خاص سوال یا پرامپٹ ہے؟
کبھی کبھار ہمیں کسی اور سے نہیں، خود سے پوچھے گئے سوال ہی سب سے زیادہ متاثر کرتے ہیں۔ یا پھر چیٹ جی پی ٹی سے کیا گیا ایک مختلف سا سوال ہمارے خیالات کو نئی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ ایسے سوال نہ صرف سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بلکہ اندر چھپے خیالات کو بھی باہر نکال لاتے ہیں۔
مثال کے طور پر:
“اگر میرا خیال ایک خوشبو ہوتا، تو وہ کس چیز کی مہک دیتا؟”
یا
“اگر میری بات ایک پرندہ ہوتی، تو وہ کون سا آسمان چُنتی؟”
اگر آپ کے پاس بھی کوئی ایسا دلچسپ سوال یا پرامپٹ ہے جس نے کبھی آپ کو کچھ نیا سوچنے پر مجبور کیا ہو، تو ہمارے ساتھ یہاں شیئر کیجیے ۔ شاید وہ کسی اور کے لیے بھی تخلیقی دروازہ کھول دے۔
آخر میں ایک بات
چیٹ جی پی ٹی شاید آپ کے لیے مکمل تخلیق نہ کر سکے۔ لیکن یہ وہ پہلا دھکا ضرور دے سکتا ہے جو کبھی کبھار سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ جب ذہن خالی ہو، خیالات کہیں گم ہو جائیں، اور دل کہے: “آج کچھ نیا سوچا ہی نہیں جا رہا” تو بس چیٹ کھولیں، اور ایک چھوٹا سا سوال کریں: “اگر میری سوچ ایک موسم ہوتی، تو کون سا ہوتا؟”
ہو سکتا ہے، اسی سوال سے ایک نیا خیال، ایک نئی تحریر، یا ایک نیا فن تخلیق ہو جائے۔ کیونکہ اکثر نیا کچھ سوچنے کے لیے صرف ایک چھوٹا سا اشارہ کافی ہوتا ہے۔ اور چیٹ جی پی ٹی وہ اشارہ بن سکتا ہے۔
No Comments