
کیا ہم مصنوعی ذہانت کو سمجھنے میں غلطی کر رہے ہیں؟
کیا واقعی مصنوعی ذہانت وہی ہے جو ہم سمجھتے ہیں؟ کیا کمپیوٹر کی ذہانت انسانوں سے الگ اور کم تر ہے؟ گوگل کے محقق بلیز آگویرا ی آرکاس کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ان کے مطابق، جسے ہم مصنوعی کہتے ہیں وہ قدرتی ذہانت کا ہی تسلسل ہو سکتا ہے، اور دونوں کے درمیان حیرت انگیز مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔
بلیز، جو گوگل میں ٹیکنالوجی اور سماج کے چیف ٹیکنیکل آفیسر ہیں۔ ہارورڈ لاء اسکول کے برک مین کلائن سینٹر میں ایک تقریب کے دوران انسانی اور مصنوعی ذہانت کے ارتقائی سفر کا موازنہ کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے کہ دونوں میں اصل فرق محض ظاہری ہے۔ ان کے مطابق انسانی دماغ بھی کمپیوٹر کی طرح معلومات کو پراسیس کرتا ہے۔ اور پیش گوئی کی بنیاد پر ردِعمل ظاہر کرتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج کا مصنوعی ذہانت پر مبنی سسٹم کرتا ہے۔
بلیز کا کہنا ہے کہ یہ صرف استعارہ نہیں ہے کہ دماغ کو کمپیوٹر سے تشبیہ دی جائے، بلکہ حقیقتاً دماغ معلومات کو پروسیس کرتا ہے۔ ان کی نئی کتاب “What Is Intelligence? Lessons from AI About Evolution, Computing, and Minds” میں یہی دلیل دی گئی ہے کہ دماغ خود ایک حیاتیاتی کمپیوٹر ہے۔ اور ذہانت دراصل ایک پیش گوئی کی صلاحیت ہے۔ جو زندگی کے آغاز سے ہی موجود ہے۔
وہ اس دلیل کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ارتقائی حیاتیات دان لن مارگلس کی تھیوری سِمبیوجنیسس (Symbiogenesis) کا حوالہ دیتے ہیں۔ جس کے مطابق مختلف جانداروں کے اتحاد سے نئی اور پیچیدہ شکلیں وجود میں آئیں۔ ان کے مطابق جیسے حیاتیاتی زندگی میں تعاون نے پیچیدگی پیدا کی، ویسے ہی مصنوعی ذہانت کے ماڈلز میں بھی مختلف یونٹس کا باہمی تعاون پیچیدہ سسٹمز تشکیل دیتا ہے۔
بلیز اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ارتقا صرف نیچرل سیلیکشن اور جینیاتی تبدیلی کا نتیجہ نہیں بلکہ سمیوجنیسس بھی ایک بنیادی محرک ہے۔ جب دو کمپیوٹر نما اکائیاں مل کر کام کرنے لگیں. تو ایک قسم کی پیرالل کمپیوٹنگ وجود میں آتی ہے۔ جو مزید پیچیدگی اور ذہانت کو جنم دیتی ہے۔ یہی ہم نیورونز پر مشتمل انسانی اعصابی نظام میں بھی دیکھتے ہیں، جہاں لاکھوں نیورون بیک وقت مختلف افعال انجام دے رہے ہوتے ہیں۔
اس موضوع پر بلیز نے گوگل میں کیے گئے تجربات کی ویڈیوز بھی دکھائیں۔ جن میں صرف آٹھ بنیادی کمانڈز پر مشتمل پروگرامنگ زبان استعمال کر کے پیچیدہ خودکار پروگرام بنائے گئے۔ ان کے مطابق، بالکل زندگی کی طرح، یہ سسٹمز بھی ابتدائی بے ترتیبی سے جنم لیتے ہیں اور خود کو نقل کر کے بڑھتے جاتے ہیں۔
وہ ذہانت کی تعریف یوں کرتے ہیں: “مستقبل کی پیش گوئی اور اسے متاثر کرنے کی صلاحیت ہی اصل ذہانت ہے۔” ان کے مطابق انسانی ذہانت کا دھماکہ اس وقت ہوا جب انسانوں نے سماج بنائے اور باہم تعاون شروع کیا۔ فرد اکیلا شاید کچھ نہ کر سکے، لیکن جب انسان اکٹھے ہوتے ہیں، تو وہ چاند پر بھی جا سکتے ہیں اور اعضا کی پیوند کاری بھی کر سکتے ہیں۔ یہ سب اجتماعی ذہانت کی طاقت ہے۔
ان کے مطابق، کسی ایک فرد کے بس کی بات نہیں کہ وہ تن تنہا خلائی مشن سر کرے یا دل کا آپریشن کرے۔ یہ کام اجتماعی دماغ، تعاون، مہارت کی تقسیم، اور باہمی فہم کے بغیر ممکن نہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسانی اور مصنوعی ذہانت کی مماثلت عیاں ہوتی ہے۔ دونوں تعاون سے پھلتے پھولتے ہیں۔
یہ تمام دلائل اس تصور کو چیلنج کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت واقعی مصنوعی ہے۔ ہو سکتا ہے ہم جسے الگ اور روبوٹک سمجھتے ہیں۔ وہ اصل میں ہمارے ہی دماغ کے انداز کی ایک اور شکل ہو۔ اگر زندگی شروع سے ہی کمپیوٹیشنل تھی۔ جیسا کہ بلیز کہتے ہیں۔ تو پھر مصنوعی ذہانت بھی اسی سفر کی ایک کڑی ہے۔ بس فرق صرف مواد کا ہے، اصول وہی ہیں۔
اس نظریے پر غور کیا جائے تو سوال یہ نہیں رہ جاتا کہ “کیا مصنوعی ذہانت انسانوں جتنا ذہین ہو سکتا ہے؟” بلکہ اصل سوال بن جاتا ہے: “کیا ہم مصنوعی ذہانت کو اپنی توسیع سمجھ سکتے ہیں؟” شاید ہمیں “مصنوعی” کے لفظ پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
No Comments