
جب ڈیجیٹل دور میں معلومات کے ذرائع بدل رہے ہوں تو ان کے تجزیے اور قانونی جانچ کے طریقے بھی بدلنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال نے قانونی دنیا میں ڈیٹا ریویو اور پروڈکشن کے عمل کو نئے چیلنجز اور مواقع دونوں فراہم کیے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کا ابھار: چین میں اے آئی چیٹ بوٹس سے ذہین کھلونوں تک میں ہم نے دیکھا کہ اے آئی کیسے روزمرہ زندگی میں گھل چکی ہے۔ اب یہی ٹیکنالوجی قانونی نظام میں بھی داخل ہو چکی ہے۔
اگرچہ پچھلے مضامین میں ہم نے نئے ڈیٹا ذرائع کو پہچاننے، محفوظ رکھنے اور جمع کرنے پر بات کی، اب وقت ہے کہ بات کی جائے اُن کے ریویو اور پروڈکشن کی جو اکثر دریافت (discovery) کا سب سے وقت طلب اور مہنگا حصہ ہوتا ہے۔
اب جب چیٹ جی پی ٹی جیسے چیٹ بوٹس اور سوشل میڈیا ڈیٹا قانونی کیسز کا حصہ بن رہے ہیں۔ تو وکلا کو صرف دستیاب ڈیٹا ہی نہیں بلکہ اس کی نوعیت، سیاق و سباق اور قانونی حیثیت کو بھی مدِنظر رکھنا ہوگا۔
ریوٹرز کی تفصیل پڑھیں
ڈیٹا کے ذرائع بدلے ہیں، لیکن قانونی اصول بدستور وہی ہیں۔ 2024 میں اے آئی اور ٹیکنالوجی کا جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح پرانے فریم ورک میں نئی ٹیکنالوجی ضم ہو رہی ہے۔
وفاقی قوانینِ دیوانی (Federal Rules of Civil Procedure) اب سوشل میڈیا پوسٹس اور چیٹ بوٹس کے پیغامات پر بھی ویسے ہی لاگو ہوتے ہیں جیسے ای میلز پر۔ عدالتیں توقع کرتی ہیں کہ ہر ڈیٹا ریکویسٹ کیس سے متعلق اور ضروری ہو۔
مثلاً: ایک ملازمت سے متعلق تنازعے میں Slack جیسے پلیٹ فارم پر کی گئی بات چیت یا نجی Facebook گروپ کی پوسٹس، رسمی ای میلز جتنی اہم ہو سکتی ہیں۔
چیٹ بوٹ کا جواب کس نے دیا انسان نے، یا خودکار نظام نے؟ اگر جواب ایک اے آئی کا ہے، تو اس کے ارادے، علم یا ہدایات کو سمجھنا مشکل ہو سکتا ہے۔
ایلون مسک کا انتباہ: انسانی ڈیٹا کا دور ختم، اب مصنوعی ڈیٹا کی حکمرانی اسی نکتے کو اجاگر کرتا ہے۔
چیٹ بوٹس کا ہر جواب اس سے پہلے دیے گئے پرامپٹس پر منحصر ہوتا ہے۔ صرف ایک پیغام کو الگ دیکھنا گمراہ کن ہو سکتا ہے۔ مکمل چیٹ تھریڈ یا سیشن کا ریویو ضروری ہے۔
چیٹ بوٹس اکثر ایسا مواد بھی پیدا کرتے ہیں جو سچ کے قریب لگے لیکن درحقیقت “ہیلوسینیشن” ہو۔ یعنی فرضی ہو۔ وکلا کو چاہیئے کہ وہ ہر جواب کی جانچ کریں۔
مائیکروسافٹ کا 80 ارب ڈالر ڈیٹا سینٹرز پر خرچ بھی اس پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔ کہ کمپنیز کس حد تک اے آئی ڈیٹا کو سنبھالنے میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
اکثر صارفین حساس معلومات نادانستہ طور پر اے آئی چیٹ بوٹس میں دے بیٹھتے ہیں۔ میٹا کا یورپ میں فیصلہ اس خطرے کو اجاگر کرتا ہے۔ کہ عوامی پوسٹس کو ماڈل ٹریننگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اگر ڈیٹا کسی تیسرے فریق کے چیٹ بوٹ یا ایپ سے آ رہا ہے، تو ضروری نہیں کہ صارف کو اس ڈیٹا پر مکمل اختیار ہو۔ قانونی ٹیم کو طے کرنا ہو گا کہ ڈیٹا واقعی اُس پارٹی کے قبضے میں ہے یا نہیں۔
سوشل میڈیا، چیٹ بوٹس اور دیگر نئی ٹیکنالوجیز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا ریویو اب پہلے سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس لیے قانونی ٹیموں کو چاہیئے کہ وہ ہر مرحلے پر مکمل شفافیت، تکنیکی فہم اور محتاط رویہ اپنائیں تاکہ شواہد کی درستگی اور مقدمے کی نوعیت دونوں محفوظ رہیں۔
Hi! I’m Mairaj Roonjha, a Computer Science student, Web developer, Content creator, Urdu AI blogger, and a changemaker from Lasbela, Balochistan. I’m currently studying at Lasbela University of Agriculture, Water and Marine Sciences (LUAWMS), where I focus on web development, artificial intelligence, and using tech for social good.
As the founder and lead of the Urdu AI project, I’m passionate about making artificial intelligence more accessible for Urdu-speaking communities. Through this blog, I aim to break down complex tech concepts into simple, relatable content that empowers people to learn and grow. I also work with the WALI Lab of Innovation to help reduce the digital divide in rural areas.
No Comments