
اے آئی کی عالمی دوڑ: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
ایک عام سوچ
کراچی کا رہائشی ریحان، جو 28 سالہ سافٹ ویئر انجینئر ہے، ہر صبح دفتر جاتے ہوئے کریم کی گاڑی کا انتظار کرتے ہوئے ٹک ٹاک پر ویڈیوز دیکھتا ہے۔ یہ معمول بن چکا ہے مزاحیہ کلپس، میوزک ریلز یا کوئی نیا کھانوں کا نسخہ۔ مگر ریحان کو اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ان کے روزمرہ کے انٹرنیٹ استعمال کے ہر قدم کے پیچھے ایک طاقتور چیز چھپی ہوئی ہے مصنوعی ذہانت یا ’’اے آئی‘‘۔ اب سوال یہ ہے کہ اس اے آئی کی عالمی دوڑ: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
ٹک ٹاک کا الگورتھم ریحان کی دلچسپیوں کو اُسے خود سے بھی بہتر جانتا ہے۔ کریم کی ایپ حقیقی وقت میں رائیڈ کی دستیابی اور روٹ پلان کرتی ہے۔ اسپوٹیفائی پر ان کے ڈرائیور کی پلے لسٹ بھی الگورتھم سے متاثر ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں بیشتر لوگ اب بھی اے آئی کو روبوٹس، اُڑتی گاڑیوں یا ایلون مسک کے مستقبل کے منصوبے سے جوڑتے ہیں۔
جب دنیا بھاگ رہی ہو، اور آپ ابھی دوڑنے کا سوچ رہے ہوں
2024 میں دنیا بھر میں اے آئی پر سرمایہ کاری کا حجم 252 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ صرف امریکہ نے 109 ارب ڈالر لگائے۔ چین اور بھارت نے قومی سطح پر پالیسیاں، ریسرچ سینٹرز، اور تعلیمی اصلاحات کے ذریعے اے آئی کو اپنی ترقی کا مرکز بنا دیا ہے۔ بھارت نے اپنے “انڈیا اے آئی مشن” کے تحت صحت، تعلیم، اور زراعت کے شعبوں کو جدید بنایا ہے۔ جبکہ چین کی ٹیکنالوجی نے نہ صرف شہروں کو ذہین بنایا ہے۔ بلکہ اے آئی کی مدد سے کھلونوں سے لے کر چیٹ بوٹس تک انقلابی تبدیلیاں لائی ہیں۔
چمکتے جزیرے، لیکن سمندر میں بکھرے ہوئے
پاکستان میں اگرچہ چند نجی ادارے اے آئی کے کچھ پہلوؤں پر کام کر رہے ہیں، لیکن یہ اقدامات منظم نہیں بلکہ بکھرے ہوئے ہیں۔
-
ای کامرس پلیٹ فارم داراز نے اپنی خدمات میں اے آئی کا استعمال کیا ہے جیسے پرسنلائزیشن، سرچ رزلٹس اور انوینٹری مینجمنٹ۔
-
ٹرانسپورٹ اور لاجسٹکس میں Bykea، Careem اور TCS مشین لرننگ کے ذریعے راستوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
-
سائلیانی ویلفیئر ٹرسٹ اور PIAIC جیسے ادارے ہزاروں نوجوانوں کو مفت اے آئی، بلاک چین اور ڈیٹا سائنس سکھا رہے ہیں۔
لیکن یہ تمام کوششیں حکومتی پالیسی کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت ہو رہی ہیں۔
اے آئی کے بغیر تعلیم: ہم کس دنیا کی تیاری کر رہے ہیں؟
اگر دنیا اپنے بچوں کو اے آئی سکھا رہی ہے، تو پاکستان کے اسکول اب بھی کمپیوٹر سائنس کو غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ بھارت میں چھٹی جماعت سے اے آئی کا مضمون پڑھایا جا رہا ہے۔ جبکہ چین نے مڈل اسکول میں بھی اے آئی لیبز قائم کر رکھی ہیں۔
پاکستان میں اگرچہ NUST، FAST اور GIKI جیسے ادارے اے آئی کی تعلیم دیتے ہیں، مگر یہ مواقع صرف شہری، مراعات یافتہ طبقے تک محدود ہیں۔
مزید یہ کہ نوجوانوں کے لیے جدید اے آئی ماڈلز کو سمجھنا بھی ضروری ہے جیسے کہ گوگل کا جیمنی ٹول یا جیمنی 2.5 ماڈل، جو دنیا کا سب سے ذہین مصنوعی ذہانت ماڈل تصور کیا جا رہا ہے۔
مستقبل کی دوڑ، پالیسی کے بغیر
پاکستان کی وزارت آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام نے کئی بار اے آئی پالیسی کے مسودے جاری کیے۔ مگر تاحال کوئی قابلِ عمل فریم ورک نہیں دیا گیا۔ نہ کوئی اے آئی فنڈ، نہ ڈیٹا گورننس قانون، اور نہ ہی اخلاقی ضابطہ۔ چین کے ساتھ مشترکہ منصوبے جیسے زرعی اے آئی ایپ امید کی کرن ضرور ہیں۔ لیکن ان کی کامیابی بھی مربوط ملکی پالیسی سے مشروط ہے۔
نوجوان خود میدان میں، مگر ریاست کہاں ہے؟
پاکستانی نوجوان، خاص طور پر خواتین، خود سے راستے بنا رہے ہیں۔ CodeGirls، Women in Tech Pakistan، اور AIDP جیسے پروگرامز، شہری علاقوں میں خواتین اور نوجوانوں کو اے آئی کی تعلیم دے رہے ہیں۔
لیکن اگر حکومت ان اقدامات کو قومی تعلیمی دھارے میں شامل نہ کرے۔ تو یہ کوششیں صرف چند علاقوں تک محدود رہیں گی، اور لاکھوں نوجوان اس انقلاب سے محروم رہ جائیں گے۔
اگر اب بھی کچھ نہ کیا تو؟
-
پیداوار میں کمی: اے آئی سے چلنے والے کاروبار 40 فیصد زیادہ مؤثر ہیں۔
-
ملازمت کا خطرہ: 60 فیصد عالمی ورکرز سمجھتے ہیں کہ ان کی نوکریاں اگلے تین سال میں اے آئی بدل دے گی۔
-
ریاستی ناکامی: دنیا اے آئی سے صحت، تعلیم، زراعت، اور ماحولیاتی بحرانوں کا حل تلاش کر رہی ہے۔ ہم پیچھے نہیں، دوڑ سے باہر ہو رہے ہیں۔
کیا کرنا چاہیے؟
اے آئی کو قومی پالیسی کا درجہ دیا جائے۔ اسکول کے نصاب میں گریڈ 6 سے کمپیوٹر اور اے آئی شامل کی جائے۔ قومی فنڈ، سپر کمپیوٹنگ کلسٹر، اور اردو زبان میں اے آئی مواد تیار کیا جائے۔ اخلاقی، قانونی، اور پالیسی فریم ورک بنایا جائے۔
یہ بلاگ The Express Tribuneمیں شائع شدہ ایک مضمون پر مبنی ہے۔
فاروق احمد
اردو اے آ ئی اُردو زبان کے بولنے والوں کے اوپر ایک عظیم احسان ہے جو لوگ مشکل لینگویجز خصوصاً انگلش سے جان چھڑاتے ہیں ۔وہ بھی آسانی سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سیکھ سکتے ہیں اور زمانے کی دوڑ میں شامل ہوسکتے ہیں