Site icon Urdu Ai

مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی اور بڑھتا ہوا عالمی فرق

مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی اور بڑھتا ہوا عالمی فرق

مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی اور بڑھتا ہوا عالمی فرق

مصنوعی ذہانت اور عالمی ترقی: ایک عالمی رپورٹ کا تجزیہ

حصہ اوّل

یہ مضمون مصنوعی ذہانت پر مبنی عالمی بینک (World Bank) کی ایک رپورٹ کے تفصیلی تجزیے پر مشتمل تین حصوں کی سیریز کا پہلا حصہ ہے۔

مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی اور بڑھتا ہوا عالمی فرق

مصنوعی ذہانت دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے، مگر اس کے فوائد سب کو یکساں کیوں نہیں مل رہے؟

مصنوعی ذہانت، جسے عام طور پر اے آئی کہا جاتا ہے، اب کسی سائنسی تجربے یا مستقبل کے تصور تک محدود نہیں رہی۔ یہ ٹیکنالوجی آج دفتری نظام، تعلیمی اداروں، صحت کے شعبے، میڈیا اور حکومتی فیصلوں تک پہنچ چکی ہے۔ خودکار نظام اب وہ کام انجام دے رہے ہیں جو کبھی انسانی وقت، مہارت اور تجربے کے محتاج تھے۔ مگر اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ ایک بنیادی سوال بھی سامنے آ رہا ہے: کیا مصنوعی ذہانت کی یہ ترقی دنیا کے تمام ممالک اور معاشروں کے لیے یکساں مواقع پیدا کر رہی ہے؟

حالیہ عالمی رپورٹ میں اس تجزیے اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ اگرچہ مصنوعی ذہانت تیزی سے پھیل رہی ہے، مگر اس کے فوائد کی تقسیم انتہائی غیر مساوی ہے۔ چند ممالک اس ٹیکنالوجی کو اپنی معیشت، صنعت اور حکمرانی کے نظام کا مرکزی ستون بنا چکے ہیں، جبکہ دنیا کے کئی حصے اب بھی بنیادی ڈیجیٹل سہولیات سے محروم ہیں۔ یہی فرق مستقبل میں ایک نئی عالمی خلیج کو جنم دے سکتا ہے، جو معاشی، سماجی اور سیاسی سطح پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔

مصنوعی ذہانت کی حالیہ تیز رفتار ترقی محض اتفاق نہیں۔ اس کے پیچھے تین بنیادی عوامل کارفرما ہیں۔ پہلا عنصر ڈیٹا کی بے مثال مقدار ہے۔ انٹرنیٹ، موبائل فون، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل خدمات نے انسانی رویوں، زبان، ترجیحات اور عادات کا ایسا ذخیرہ پیدا کیا ہے جو ماضی میں ممکن نہیں تھا۔ دوسرا عنصر کمپیوٹنگ طاقت ہے، جس نے پیچیدہ ترین حسابات کو بھی لمحوں میں ممکن بنا دیا۔ تیسرا عنصر جدید الگورتھمز ہیں، جو انسانی دماغ کی طرز پر سیکھنے، غلطیوں سے سبق لینے اور بہتر فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ان تینوں عناصر کے امتزاج نے جنریٹیو مصنوعی ذہانت کو جنم دیا، جو نہ صرف معلومات کا تجزیہ کرتی ہے بلکہ نئی تحریر، تصاویر، آواز اور کوڈ بھی تخلیق کر سکتی ہے۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب مصنوعی ذہانت عام صارف کی زندگی میں براہِ راست داخل ہوئی اور دنیا بھر میں اس پر غیر معمولی توجہ مرکوز ہو گئی۔ تاہم اس تیزی نے یہ سوال بھی کھڑا کیا کہ آیا دنیا اس تبدیلی کے لیے یکساں طور پر تیار ہے یا نہیں۔

اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی تحقیق، سرمایہ کاری، پیٹنٹس اور جدید ماڈلز کا بڑا حصہ چند امیر ممالک تک محدود ہے۔ بڑے ڈیٹا سینٹرز، طاقتور سرورز اور اعلیٰ تحقیقی ادارے وہیں موجود ہیں جہاں سرمایہ، توانائی اور ماہر افرادی قوت دستیاب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی سمت، اس کے اخلاقی اصول اور اس کے تجارتی استعمال کے فیصلے بھی وہی ممالک کر رہے ہیں۔

اس کے برعکس کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں مصنوعی ذہانت زیادہ تر ایک درآمد شدہ سہولت کے طور پر موجود ہے۔ وہاں یہ ٹیکنالوجی تخلیق نہیں کی جاتی بلکہ استعمال کی جاتی ہے، اور وہ بھی محدود سطح پر۔ یہی فرق مستقبل میں معاشی طاقت، روزگار کے مواقع اور پالیسی اختیار پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔ جب ٹیکنالوجی کی تخلیق چند ہاتھوں میں مرکوز ہو جائے تو اس کے فوائد بھی انہی ہاتھوں میں سمٹنے لگتے ہیں۔

یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال اور اس پر اختیار دو مختلف چیزیں ہیں۔ کسی بھی ملک میں چیٹ بوٹس یا خودکار نظام دستیاب ہونا اس بات کی ضمانت نہیں کہ وہ ملک اس ٹیکنالوجی سے حقیقی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اختیار کا مطلب ہے کہ کوئی ملک مصنوعی ذہانت کو اپنی زبان، قوانین، ثقافت اور سماجی ضروریات کے مطابق ڈھال سکے اور اس کے نتائج پر کنٹرول رکھ سکے۔

عالمی اعداد و شمار کے مطابق کم آمدنی والے ممالک دنیا میں مصنوعی ذہانت کے مجموعی استعمال کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں استعمال بھی زیادہ تر سطحی نوعیت کا ہے، جیسے معلومات تلاش کرنا یا سادہ تحریر تیار کرنا۔ صنعتی پیداوار، تعلیمی اصلاحات یا حکومتی فیصلہ سازی میں مصنوعی ذہانت کا گہرا اور منظم استعمال ابھی بہت محدود ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اصل ڈیجیٹل خلیج پیدا ہو رہی ہے۔

مصنوعی ذہانت کی یہ غیر مساوی ترقی صرف ٹیکنالوجی کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک پالیسی اور حکمرانی کا چیلنج بھی ہے۔ اگر کوئی ملک مصنوعی ذہانت کو سمجھنے، اس پر ضابطہ بنانے اور اسے مقامی ضروریات کے مطابق استعمال کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ طویل مدت میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اس طرح ٹیکنالوجی ترقی کا ذریعہ بننے کے بجائے ناہمواری کو مزید گہرا کر سکتی ہے۔

یہ بھی قابلِ غور ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ترقی صرف معیشت تک محدود نہیں رہتی۔ اس کے اثرات تعلیم، صحت، میڈیا، روزگار اور حتیٰ کہ جمہوری عمل تک پھیل جاتے ہیں۔ جو ممالک اس ٹیکنالوجی پر اختیار رکھتے ہیں، وہ نہ صرف معاشی فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ عالمی معیار، اصول اور بیانیے بھی تشکیل دیتے ہیں۔ جو ممالک پیچھے رہ جاتے ہیں، وہ ان فیصلوں کے تابع ہو جاتے ہیں۔

حصہ اوّل کا خلاصہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت ایک انقلابی ٹیکنالوجی ضرور ہے، مگر اس کی ترقی اور فوائد یکساں نہیں۔ اصل فرق صرف اس بات کا نہیں کہ کون سی ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے، بلکہ یہ ہے کہ کون اس پر اختیار رکھتا ہے، کون اسے سمجھتا ہے اور کون اسے اپنی ضروریات کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔ یہی فرق آنے والے برسوں میں عالمی طاقت کے توازن کو نئی شکل دے سکتا ہے۔

یہ مضمون مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک عالمی رپورٹ کے تجزیے پر مشتمل تین حصوں کی سیریز کا پہلا حصہ تھا۔
اگلے حصے میں ہم اس سوال کا تفصیل سے جائزہ لیں گے کہ مصنوعی ذہانت کی کامیابی کے لیے وہ کون سی بنیادی شرائط ہیں جن کے بغیر کوئی بھی ملک اس ٹیکنالوجی سے حقیقی فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔

اس سیریز کا دوسرا حصہ، مصنوعی ذہانت کی بنیادیں اور وہ چار ستون جو ترقی کا فیصلہ کرتے ہیں، کل شائع کیا جائے گا۔

Exit mobile version