Genesis مشن کیا ہے؟ امریکہ کا AI پر مبنی سب سے بڑا قومی منصوبہ
18 دسمبر 2025 کو امریکہ کے محکمہ توانائی نے ایک اہم اعلان کیا جو ملک کے سائنسی، دفاعی اور توانائی کے نظام کے لیے ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اعلان کے مطابق، حکومت نے ملک اور دنیا کی 24 بڑی اور معتبر ٹیکنالوجی کمپنیوں کے ساتھ ایک اشتراک قائم کیا ہے۔ اس اشتراک کا مقصد ایک نیا اور غیر معمولی منصوبہ شروع کرنا ہے جس کا نام ہے جینیسز مشن (Genesis Mission)۔ یہ مشن مصنوعی ذہانت کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ایسے شعبوں میں ترقی لائے گا جن پر انسانیت کا مستقبل منحصر ہے، جیسے:
- سائنس: یعنی نئی دریافتیں، تجربات اور تحقیق کو پہلے سے کہیں زیادہ تیز اور مؤثر بنانا۔
- قومی سلامتی: یعنی دفاعی نظاموں کو مزید ذہین، خودکار اور خطرات کا پہلے سے اندازہ لگانے کے قابل بنانا۔
- توانائی: یعنی بجلی، گیس اور دیگر ذرائع کو زیادہ محفوظ، مؤثر اور ماحول دوست بنانا۔
اس مشن کی خاص بات یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر امریکہ کے اندرونی وسائل اور صلاحیتوں پر انحصار کرے گا تاکہ ملک کو غیر ملکی ٹیکنالوجی یا ڈیٹا پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ اس میں صرف کمپیوٹر یا سافٹ ویئر کی بات نہیں ہو رہی، بلکہ یہ مشن ایک تحقیقی انقلاب کا پیش خیمہ ہے جو پورے سائنسی نظام کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ مضمون آپ کے لیے لکھا گیا ہے تاکہ اگر آپ ٹیکنالوجی کے ماہر نہیں بھی ہیں تو بھی آپ بخوبی سمجھ سکیں کہ یہ مشن کیا ہے، اس میں کون کون شامل ہے، اور یہ آپ کے مستقبل پر کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران، مصنوعی ذہانت بہت تیزی سے ترقی کرتی آئی ہے اور یہ ہماری روزمرہ زندگی کا ایک اہم حصہ بنتی جا رہی ہے، چاہے ہم موبائل پر چیٹ بوٹس استعمال کریں یا آن لائن سفارشاتی نظام، ہر جگہ مصنوعی ذہانت کا استعمال نظر آتا ہے۔ لیکن اب 2026 ایک ایسا نیا موڑ لے کر آیا ہے جہاں صرف یہ دیکھنا کافی نہیں ہوگا کہ مصنوعی ذہانت موجود ہے یا نہیں، بلکہ اصل توجہ اس بات پر مرکوز ہو گی کہ مصنوعی ذہانت کتنا مؤثر ہے، اس سے حاصل ہونے والے نتائج کیا ہیں، اس پر آنے والی لاگت کتنی ہے، اور اس کا حقیقی فائدہ کس کو ہو رہا ہے؟ اس سوچ میں ایک واضح تبدیلی آئی ہے اب سوال یہ نہیں رہا کہ “کیا مصنوعی ذہانت یہ کام کر سکتی ہے؟ بلکہ یہ ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت یہ کام بہتر انداز میں کر سکتی ہے، کتنے وسائل خرچ کر کے، اور کس طبقے کو فائدہ پہنچا کر؟ امریکی حکومت کا جینیسز مشن بھی اسی نئی سوچ کا عکاس ہے، جہاں مصنوعی ذہانت کو صرف ایک ٹیکنالوجی کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسی طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو سائنسی ترقی، قومی سلامتی اور توانائی کے مسائل کو حل کرنے میں حقیقی کردار ادا کر سکتی ہے۔ وہ بھی مؤثر، قابلِ اعتماد اور سب کے فائدے کے ساتھ۔
یہ جینیسز مشن دراصل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اُس اہم پالیسی کا حصہ ہے جسے “America’s AI Action Plan” کہا جاتا ہے۔ اس پالیسی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ امریکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں مکمل طور پر خودکفیل ہو جائے، یعنی اسے کسی غیر ملکی ملک یا کمپنی کے سسٹم پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ دوسرے الفاظ میں، امریکہ چاہتا ہے کہ اس کی سائنسی ترقی، دفاعی ٹیکنالوجی اور توانائی کے نظام اپنے ہی ملک کے اندرونی وسائل، ماہرین اور سسٹمز کے ذریعے ترقی کریں۔ اسی مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے وائٹ ہاؤس میں ایک بہت اہم اور اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد کیا گیا، جس میں امریکہ کی اہم ترین حکومتی اور سائنسی شخصیات نے شرکت کی۔ ان میں امریکی وزیر توانائی کرس رائٹ، جینیسز مشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر داریو گل، اور سائنس و ٹیکنالوجی پالیسی کے ڈائریکٹر مائیکل کراتسیوس شامل تھے۔ اس اجلاس میں نہ صرف مشن کے مقاصد پر بات کی گئی بلکہ یہ طے پایا کہ ملک بھر کی بڑی کمپنیاں، تحقیقی ادارے اور ٹیکنالوجی ماہرین مل کر اس مشن کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اس سے امریکہ کو نہ صرف عالمی سطح پر تکنیکی برتری حاصل ہو گی بلکہ عوام کو بھی سستے، محفوظ اور جدید حل میسر آئیں گے۔
جینیسز مشن کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر داریو گل نے اس منصوبے کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو صرف ایک مشینی نظام نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے ایک ایسا ذہین معاون بنا دیا جائے جو سائنسدانوں کے ہاتھ میں ایک طاقتور آلہ ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت سائنس دانوں کے لیے تجربات کی منصوبہ بندی، ان کی خودکار انجام دہی، پیچیدہ سائنسی مسائل کا فوری حل تلاش کرنے، اور نئی تحقیق میں تیزی لانے کا ذریعہ بنے۔ یعنی اب ایک تجربہ جسے پہلے مکمل ہونے میں ہفتے لگتے تھے، مصنوعی ذہانت کی مدد سے چند دنوں یا گھنٹوں میں مکمل ہو سکے گا۔ لیکن یہ مشن صرف بڑی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں یا تجربہ گاہوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ اس کا فائدہ براہِ راست عام لوگوں تک پہنچے گا۔ مثال کے طور پر، دوا بنانے والی کمپنیاں اب مصنوعی ذہانت کے ذریعے بیماریوں کے خلاف نئی اور مؤثر دوائیں زیادہ تیزی سے تیار کر سکیں گی، جو پہلے کئی سال لیتا تھا۔ اسی طرح توانائی کے ماہرین ایسی ٹیکنالوجی بنا سکیں گے جو ماحول کو نقصان دیے بغیر سستی اور صاف بجلی مہیا کرے۔ اور سب سے اہم بات، ملک کی سلامتی سے جُڑے ادارے پہلے سے خطرات کا اندازہ لگا کر دفاعی اقدامات کر سکیں گے، جیسے سائبر حملے یا قدرتی آفات کا خطرہ۔ گویا یہ مشن سائنس، توانائی، صحت، اور دفاع سب میدانوں میں عوامی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
اس تاریخی مشن کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ اس میں دنیا کی 24 مشہور اور بااثر کمپنیاں شامل ہو رہی ہیں، جو ٹیکنالوجی، کمپیوٹر، ڈیٹا، اور مصنوعی ذہانت کے میدان میں عالمی رہنما مانی جاتی ہیں۔ ان کمپنیوں کی شمولیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جینیسز مشن صرف ایک سرکاری منصوبہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا اجتماعی قدم ہے جس میں نجی شعبے، تحقیقاتی ادارے، اور حکومت سب مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ امریکہ کو سائنسی ترقی، قومی سلامتی، اور توانائی میں خودکفیل بنایا جا سکے۔ ان کمپنیوں میں شامل ہیں:
گوگل (Google) اور مائیکروسافٹ (Microsoft) جیسی کمپنیاں جو دنیا کے سب سے بڑے سافٹ ویئر پلیٹ فارمز چلاتی ہیں۔ این ویڈیا (NVIDIA) اور اے ایم ڈی (AMD) جو جدید کمپیوٹر چپس اور گرافکس ٹیکنالوجی بناتی ہیں۔ اوپن اے آئی (OpenAI) جو چیٹ جی پی ٹی جیسی اے آئی سروسز کی تخلیق کار ہے۔ آئی بی ایم (IBM)، انٹیل (Intel) اور ڈیَل (Dell) جیسے کمپیوٹر ساز ادارے۔ ایمازون ویب سروسز (AWS)، اوریکل (Oracle)، کور ویو (CoreWeave) اور ایچ پی ای (HPE) جیسے بڑے کلاؤڈ اور ڈیٹا ہینڈلنگ نیٹ ورکس۔ اس کے علاوہ، Palantir، xAI، Accenture، Anthropic، Project Prometheus، DrivenData، Periodic Labs، XPRIZE، Radical AI، Arm، Armada، اور Cerebras جیسی جدید اور تحقیقاتی کمپنیوں کی شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ اس مشن کو کامیاب بنانے کے لیے ہر شعبے کی بہترین مہارتیں اکٹھی کی گئی ہیں۔
یہ کمپنیاں یا تو پہلے ہی محکمہ توانائی (DOE) کے ساتھ مختلف پروجیکٹس پر کام کر رہی ہیں یا انہوں نے اس مشن میں باقاعدہ شراکت داری کے لیے خواہش ظاہر کی ہے۔ سب کا مشترکہ ہدف یہ ہے کہ ایسی مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجیز تیار کی جائیں جو مخصوص کمپنیوں یا ملکوں تک محدود نہ ہوں، بلکہ ان کا فائدہ پورے امریکہ اور اس کے عوام تک پہنچے۔
مائیکل کراتسیوس، جو وائٹ ہاؤس میں سائنس اور ٹیکنالوجی پالیسی کے ڈائریکٹر ہیں، نے جینیسز مشن کی وسعت اور اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد صرف چند بڑی کمپنیوں تک محدود نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کی ہر یونیورسٹی، ہر تحقیقی ادارہ، ہر محقق، اور یہاں تک کہ نجی کمپنیاں بھی اس مشن میں شامل ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ جینیسز مشن ایک ایسا قومی منصوبہ ہے جو صرف حکومت کے لیے نہیں، بلکہ پورے امریکہ کے لیے ہے۔ اگر اس مشن میں ہر سطح پر لوگ شامل ہوں گے تو مصنوعی ذہانت کی طاقت سے حاصل ہونے والے فائدے صرف بڑی ٹیک کمپنیوں تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ عام لوگ، طالب علم، مریض، انجینئر، کسان، اساتذہ، اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس سے مستفید ہوں گے۔ یہی وژن ہے جس کے تحت امریکہ چاہتا ہے کہ مصنوعی ذہانت ایک مخصوص طبقے کی نہیں بلکہ ہر شہری کی خدمت کرے۔
جینیسز مشن صرف سائنسدانوں یا ٹیکنالوجی کے ماہرین کے لیے مخصوص نہیں، بلکہ اس کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔ یہ مشن امریکہ کو سائنسی ترقی کے ساتھ ساتھ معاشی مضبوطی، تعلیمی بہتری اور سماجی انصاف کے میدان میں بھی آگے لے جانے کا ذریعہ بنے گا۔ یعنی جب مصنوعی ذہانت کے ذریعے نئی دوائیں جلد تیار ہوں گی، توانائی کے سستے اور محفوظ ذرائع دستیاب ہوں گے، اور خطرات کا پہلے سے پتہ لگایا جا سکے گا، تو اس کے اثرات عام عوام کی زندگیوں میں بھی محسوس ہوں گے۔ مہنگائی کم ہو سکتی ہے، تعلیم مزید مؤثر ہو سکتی ہے، اور سماجی سطح پر نئی سہولیات جنم لے سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی محکمہ توانائی (Department of Energy) نے اس مشن میں شمولیت کے لیے دو اہم مواقع (RFI – Request for Information) فراہم کیے ہیں، تاکہ ملک بھر کے ادارے براہِ راست اس میں حصہ لے سکیں۔ پہلا موقع ہے: “Transformational AI Models”، جس کی آخری تاریخ 14 جنوری 2026 ہے۔ اور دوسرا ہے: “AI for National Security”، جس کی آخری تاریخ 23 جنوری 2026 رکھی گئی ہے۔ اگر آپ کسی یونیورسٹی، تحقیقی ادارے، یا نجی کمپنی سے وابستہ ہیں، تو آپ ان درخواستوں کے ذریعے اس تاریخی مشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف بڑی کمپنیاں نہیں، بلکہ تعلیمی اور سائنسی حلقے بھی اپنی تحقیق، نظریات اور تجربات کے ساتھ اس مشن میں شامل ہو کر نہ صرف ملک کی خدمت کر سکتے ہیں بلکہ خود بھی ترقی کی نئی راہیں کھول سکتے ہیں۔

