Site icon Urdu Ai

کیا خلا میں مصنوعی ذہانت کو سورج کی روشنی سے چلایا جا سکتا ہے؟ جانیں گوگل کا منصوبہ کیا ہے؟

کیا خلا میں مصنوعی ذہانت کو سورج کی روشنی سے چلایا جا سکتا ہے؟ جانیں گوگل کا منصوبہ کیا ہے؟

کیا خلا میں مصنوعی ذہانت کو سورج کی روشنی سے چلایا جا سکتا ہے؟ جانیں گوگل کا منصوبہ کیا ہے؟

کیا خلا میں مصنوعی ذہانت کو سورج کی روشنی سے چلایا جا سکتا ہے؟ جانیں گوگل کا منصوبہ کیا ہے؟

زمین پر توانائی کی کمی اور بڑھتے ہوئے ماحولیاتی مسائل نے سائنسدانوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم مصنوعی ذہانت جیسے طاقتور ٹول کو زیادہ بہتر اور ماحول دوست طریقے سے کیسے چلا سکتے ہیں۔ گوگل کا منصوبہ، جسے “پروجیکٹ سن کیچر” کہا جاتا ہے، اسی خیال کی ایک مثال ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کو زمین کے بجائے خلا میں چلایا جائے، جہاں سورج کی توانائی تقریباً مسلسل دستیاب ہوتی ہے۔

آج ہم مصنوعی ذہانت کو کئی کاموں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جیسے بیماریوں کی تشخیص، فصلوں کی نگرانی یا خودکار گاڑیوں کو چلانا۔ لیکن ان تمام کاموں کے لیے بہت زیادہ کمپیوٹر طاقت درکار ہوتی ہے، جو زمین پر موجود ڈیٹا سینٹرز سے حاصل کی جاتی ہے۔ یہ ڈیٹا سینٹرز بہت زیادہ بجلی استعمال کرتے ہیں اور ان کے لیے بڑی جگہ اور کولنگ سسٹمز بھی چاہیے ہوتے ہیں۔ اسی لیے گوگل نے سوچا کہ کیوں نہ خلا میں سیٹلائٹس کے ذریعے مصنوعی ذہانت ماڈلز کو تربیت دی جائے؟ خلا میں سورج کی روشنی زمین سے زیادہ مسلسل ملتی ہے۔ اس لیے وہاں سولر پینلز زیادہ کارآمد ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی، وہاں جگہ کی کمی یا زیادہ گرمی جیسے مسائل بھی نہیں ہوتے۔

گوگل کے اس منصوبے میں چھوٹے سیٹلائٹس خلا میں بھیجے جائیں گے جن میں خاص کمپیوٹر چپ یعنی TPU (Tensor Processing Unit) لگائی جائے گی۔ یہ چپ مصنوعی ذہانت ماڈلز کو تیزی سے سیکھانے میں مدد دیتی ہے۔ سیٹلائٹس آپس میں روشنی کی مدد سے ڈیٹا کا تبادلہ کریں گے۔ بلکل ویسے جیسے فائبر آپٹکس میں ہوتا ہے، لیکن بغیر کسی تار کے۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ خلا میں سیٹلائٹس کو ایک ساتھ کیسے رکھا جائے گا؟ گوگل نے جدید ریاضی اور ماڈلز کی مدد سے یہ حساب لگایا ہے کہ سیٹلائٹس کو کس فاصلے پر رکھنا چاہیے تاکہ وہ ایک دوسرے سے ڈیٹا شیئر بھی کر سکیں اور اپنی جگہ پر مستحکم بھی رہیں۔ ایک تجربے میں گوگل نے ثابت کیا کہ یہ سیٹلائٹس روشنی کے ذریعے ایک دوسرے سے 1.6 ٹیرابٹ فی سیکنڈ کی رفتار سے ڈیٹا شیئر کر سکتے ہیں۔ جو کہ زمین پر موجود تیز ترین انٹرنیٹ سے بھی زیادہ ہے۔

اب خلا میں ایک اور چیلنج بھی ہوتا ہے۔ تابکاری (radiation)، جو الیکٹرانک ڈیوائسز کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ گوگل نے اپنی چپ کو ایک خاص لیب میں تیز تابکاری میں رکھا اور دیکھا کہ یہ چپ اس تابکاری کو برداشت کر سکتی ہے یا نہیں۔ خوش قسمتی سے یہ چپ پانچ سال کے مشن کے دوران جتنی تابکاری آئے گی، اس سے تین گنا زیادہ برداشت کر سکتی ہے۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے: کیا یہ سب بہت مہنگا نہیں ہوگا؟ پہلے خلا میں کچھ بھی بھیجنا بہت مہنگا ہوتا تھا، لیکن اب ٹیکنالوجی کی ترقی سے لانچ کی لاگت بہت کم ہو گئی ہے۔ گوگل کا ماننا ہے کہ 2035 تک خلا میں سامان بھیجنے کی لاگت اتنی کم ہو جائے گی کہ خلا میں ڈیٹا سینٹر بنانا زمین پر بنائے گئے ڈیٹا سینٹر کے برابر خرچ والا ہو گا۔ اردو اے آئی کے پلیٹ فارم پر یہ سمجھایا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو سیکھنے اور چلانے کے لیے بنیادی وسائل کیا ہوتے ہیں۔

اب گوگل اگلے مرحلے کی تیاری کر رہا ہے، جس میں وہ 2027 تک دو سیٹلائٹس خلا میں بھیجے گا۔ یہ ایک تجربہ ہو گا تاکہ دیکھا جا سکے کہ گوگل کا نظام خلا میں کیسے کام کرتا ہے۔ اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جاتا ہے تو مستقبل میں ہزاروں سیٹلائٹس ایک ساتھ خلا میں ہوں گے، جو ایک دوسرے سے جُڑے ہوں گے اور دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت کو چلانے کے لیے استعمال ہوں گے۔ یہ ویسا ہی انقلاب ہو گا جیسا سمارٹ فون نے دنیا میں پیدا کیا۔ اے آئی دنیا بدل رہی ہے، اور آپ؟ اردو اے آئی کا یہ بلاگ اسی تبدیلی کی جھلک پیش کرتا ہے۔

اس منصوبے کی کامیابی یہ ثابت کر سکتی ہے کہ مصنوعی ذہانت صرف زمین تک محدود نہیں، بلکہ ہم اسے خلا کی وسعتوں میں لے جا سکتے ہیں۔ بغیر زمین کے وسائل کو نقصان پہنچائے۔ خلا میں سولر انرجی، بہتر کارکردگی اور کم لاگت کے ساتھ یہ سسٹم انسانیت کو ایک نیا راستہ دکھا سکتا ہے۔ اور اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کیسے شروع ہوا تھا، تو یہ تفصیل آپ کے لیے معلوماتی ثابت ہو سکتی ہے۔

 

Exit mobile version