Site icon Urdu Ai

مصنوعی ذہانت کی بنیادیں اور وہ چار ستون جو ترقی کا فیصلہ کرتے ہیں

مصنوعی ذہانت کی بنیادیں اور وہ چار ستون جو ترقی کا فیصلہ کرتے ہیں

مصنوعی ذہانت کی بنیادیں اور وہ چار ستون جو ترقی کا فیصلہ کرتے ہیں

مصنوعی ذہانت اور عالمی ترقی: ایک عالمی رپورٹ کا تجزیہ

حصہ دوم

یہ مضمون مصنوعی ذہانت پر مبنی عالمی بینک (World Bank) کی ایک رپورٹ کے تفصیلی تجزیے پر مشتمل تین حصوں کی سیریز کا دوسرا حصہ ہے۔

مصنوعی ذہانت کی بنیادیں اور وہ چار ستون جو ترقی کا فیصلہ کرتے ہیں

انٹرنیٹ، ڈیٹا، کمپیوٹنگ طاقت اور انسانی مہارت کیوں اے آئی کے لیے ناگزیر ہیں؟

مصنوعی ذہانت کو اکثر ایک جدید سافٹ ویئر یا خودکار ٹیکنالوجی کے طور پر دیکھا جاتا ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک مکمل نظام ہے جو کئی بنیادی عناصر پر قائم ہوتا ہے۔ اگر ان عناصر میں سے کوئی ایک بھی کمزور ہو تو مصنوعی ذہانت مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی، چاہے اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی کتنی ہی جدید کیوں نہ ہو۔ اسی لیے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اے آئی کو سمجھنے کے لیے صرف اس کے نتائج نہیں بلکہ اس کی بنیادوں کو دیکھنا ضروری ہے۔

سب سے پہلی اور بنیادی شرط تیز، سستا اور قابلِ اعتماد انٹرنیٹ ہے۔ جدید اے آئی نظام مسلسل ڈیٹا کے تبادلے، کلاؤڈ سروسز اور آن لائن ماڈلز پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر انٹرنیٹ کی رفتار کم ہو، ڈیٹا مہنگا ہو یا کنیکشن بار بار منقطع ہو جائے تو یہ نظام مؤثر طریقے سے کام نہیں کر پاتے۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک میں یہی مسئلہ سامنے آتا ہے، جہاں لوگ ڈیٹا بچانے پر مجبور ہوتے ہیں اور جدید ڈیجیٹل خدمات ان کے لیے عملی طور پر ناقابلِ رسائی بن جاتی ہیں۔

انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ بجلی کی غیر یقینی فراہمی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ڈیجیٹل نظام صرف اسی وقت درست کام کرتے ہیں جب توانائی کا نظام مستحکم ہو۔ اگر بجلی بار بار بند ہو تو نہ ڈیٹا محفوظ رہتا ہے اور نہ ہی آن لائن خدمات تسلسل کے ساتھ فراہم کی جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیجیٹل ترقی کو توانائی کے نظام سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ دونوں ایک دوسرے سے گہرے طور پر جڑے ہوئے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی ایک اور اہم بنیاد وہ کمپیوٹنگ طاقت ہے جو عام صارف کو نظر نہیں آتی، مگر حقیقت میں یہی اے آئی کا دل ہوتی ہے۔ طاقتور کمپیوٹرز، جدید چپس، ڈیٹا سینٹرز اور کلاؤڈ انفراسٹرکچر کے بغیر نہ جدید ماڈلز تیار کیے جا سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سہولیات نہایت مہنگی ہیں اور دنیا کے چند ممالک اور چند بڑی کمپنیوں کے پاس مرکوز ہیں۔

ترقی پذیر ممالک عموماً بیرونی کلاؤڈ سروسز پر انحصار کرتے ہیں، جس سے فوری طور پر ٹیکنالوجی تک رسائی تو مل جاتی ہے، مگر اس کے ساتھ کئی نئے سوالات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ڈیٹا کہاں محفوظ ہو رہا ہے، اس پر کن کا کنٹرول ہے، اور طویل مدت میں یہ انحصار قومی خودمختاری اور پالیسی فیصلوں کو کیسے متاثر کرے گا۔ یہ سب ایسے سوالات ہیں جن کے جواب آسان نہیں۔ جب کسی ملک کا ڈیجیٹل نظام مکمل طور پر بیرونی انفراسٹرکچر پر کھڑا ہو تو اس کے اثرات محض تکنیکی نہیں رہتے بلکہ سیاسی اور معاشی بھی ہو جاتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی بنیادوں میں ڈیٹا اور مقامی تناظر بھی مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ زیادہ تر اے آئی نظام انگریزی زبان اور مغربی معاشرتی ڈیٹا پر تربیت یافتہ ہوتے ہیں، جس کے باعث وہ مقامی زبانوں، ثقافت اور سماجی حقائق کو درست طور پر نہیں سمجھ پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک میں اے آئی کے نتائج غیر مؤثر یا بعض اوقات گمراہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اگر ٹیکنالوجی مقامی حالات کی عکاسی نہ کرے تو وہ مسائل حل کرنے کے بجائے نئے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق مقامی ڈیٹا کے بغیر مصنوعی ذہانت کو مؤثر بنانا ممکن نہیں۔ خاص طور پر تصاویر، آواز اور ویڈیو جیسے ڈیٹا میں ترقی پذیر ممالک کے لیے نئے مواقع موجود ہیں، کیونکہ یہ ڈیٹا صرف تحریر تک محدود نہیں ہوتا اور مقامی زبان و ثقافت کو بہتر انداز میں سمو سکتا ہے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ اس نوعیت کے ڈیٹا میں سرمایہ کاری کم ہوتی ہے، کیونکہ اس کے فوائد فوری طور پر نظر نہیں آتے اور اکثر نجی شعبہ اس میں دلچسپی نہیں لیتا۔

ان تمام تکنیکی عناصر کے ساتھ سب سے اہم کردار انسان کا ہے۔ ٹیکنالوجی جتنی بھی جدید ہو، اگر اسے استعمال کرنے، سمجھنے اور بہتر بنانے والے افراد موجود نہ ہوں تو اس کا فائدہ محدود رہتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے معاملے میں انسانی مہارت کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، کیونکہ اس ٹیکنالوجی کو نہ صرف چلانا ہوتا ہے بلکہ اس کی نگرانی، اصلاح اور مقامی ضروریات کے مطابق ڈھالنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں اے آئی سے متعلق مہارتوں کی مانگ تیزی سے بڑھ رہی ہے، مگر تعلیمی ادارے اور تربیتی نظام اس رفتار کا ساتھ نہیں دے پا رہے۔ اس کے علاوہ ماہر افراد کا بیرون ملک جانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس سے مقامی صلاحیت مزید کمزور ہو جاتی ہے۔ جب انسانی سرمایہ کمزور ہو تو مصنوعی ذہانت محض ایک درآمد شدہ ٹیکنالوجی بن کر رہ جاتی ہے، جس پر مقامی اختیار محدود ہوتا ہے۔

یہ تمام عناصر دراصل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مضبوط انٹرنیٹ کے بغیر کمپیوٹنگ طاقت بے فائدہ ہو جاتی ہے، مقامی ڈیٹا کے بغیر جدید الگورتھمز غیر مؤثر ثابت ہوتے ہیں، اور انسانی مہارت کے بغیر پورا نظام کمزور پڑ جاتا ہے۔ اسی لیے ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی حکمتِ عملی جزوی نہیں بلکہ جامع ہونی چاہیے، جس میں تمام بنیادوں پر بیک وقت توجہ دی جائے۔

حصہ دوم ہمیں یہ واضح طور پر سمجھاتا ہے کہ مصنوعی ذہانت صرف کوڈ یا مشینوں کا نام نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو بنیادی ڈھانچے، مقامی تناظر اور انسانی صلاحیت پر قائم ہوتا ہے۔ جب تک یہ بنیادیں مضبوط نہ ہوں، اے آئی ترقی کا وعدہ پورا نہیں کر سکتی، اور اس کے فوائد چند ہاتھوں تک محدود رہنے کا خطرہ برقرار رہتا ہے۔

یہ مضمون مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک عالمی رپورٹ کے تجزیے پر مشتمل تین حصوں کی سیریز کا دوسرا حصہ تھا۔ اس حصے میں ہم نے ان بنیادی ستونوں کو سمجھنے کی کوشش کی جن کے بغیر مصنوعی ذہانت کسی بھی ملک کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہو سکتی۔

اگلے حصے میں ہم اس سوال پر توجہ دیں گے کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے مصنوعی ذہانت کا سب سے حقیقت پسندانہ راستہ کیا ہو سکتا ہے۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ مہنگے اور پیچیدہ ماڈلز کے بجائے مقامی ضروریات کے مطابق تیار کی گئی ’’چھوٹی اے آئی‘‘ کس طرح ترقی، پالیسی اور حکمرانی میں عملی کردار ادا کر سکتی ہے۔

اس سیریز کا تیسرا  حصہ، “مصنوعی ذہانت اور پالیسی: فیصلے جو مستقبل طے کریں گے”، کل شائع کیا جائے گا۔

Exit mobile version